کیا ہم سقوطِ ڈھاکہ کی طرف بڑھ رہے ہیں ؟

عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں کو 15 دن ہو چکے ہیں ہر آنے والا دن مزید خرابی کی طرف بڑھتا نظر آتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس سے قبل اتنا طویل احتجاج نہیں کیا گیا۔ علامہ طاہر القادری نے تیسری مرتبہ 48 گھنٹوں کا الٹی میٹم دیا جبکہ شہادت کی تمنا اُن کے دل میں ابھی پہلے کی طرح موجزن ہے جس کا اظہار وہ اپنی خطابت کے ذریعے کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز تو انہوں نے اپنے کارکنوں کو مزید اپنا گرویدہ بنانے کیلئے کفن بھی تیار کرا کے سٹیج پر لہراتے ہوئے عہد کیا کہ اب وہ شہید ہونے والے ہیں اور یہ کفن بھی میرے ہاتھ میں ہے۔ علامہ طاہر القادری مسلسل 15 دنوں سے وقفہ وقفہ سے خطاب کر کے اپنی خطابت کے جوہر دکھا رہے ہیں لیکن جیسے مرشد علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نوا نوازی‘‘ ابھی تک علامہ طاہر القادری اپنی تحریک میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے کیونکہ تمام بڑی جماعتوں کی اپیل اور مذاکرات کو انہوں نے بڑی رعونت کے ساتھ رد کر دیا ہے کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں اور اب اسمبلیوں کو توڑ کر نئے انتخابات کے بیانات سامنے آنے لگے ہیں بعنیہ دوسری طرف تحریک انصاف کے قائد عمران خان طاہر القادری سے بھی دو ہاتھ آگے نکل چکے ہیں کہ جن کی ضد اور انا صرف وزیراعظم کے مستعفی ہونے پر اٹکی ہوئی ہے۔ عمران خان نے یہ دھرنا دے کر اپنی سیاست کو ایک ایسے دوراہے پر لا کر کھڑا کیا ہے کہ جس میں ذرا سی سیاسی غلطی بھی ان کو ہیرو سے زیرو بنا سکتی ہے لیکن شاید اس وجہ سے وہ لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہے لیکن عمران خان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ شہسوار جب گھوڑے کو دوڑاتا ہے تو وہ میدان میں اچھے حریف کو ہرانے کیلئے گھوڑے پر بیٹھ کر بھی کئی دائو آزماتا ہے اس دوران وہ جھک کر بھی اپنے گھوڑے کو آگے بڑھاتا ہے اور کبھی کھڑے ہو کر بھی لیکن یہ ضد نہیں کہ ہر حال میں ہی مَیں نے میدان مارنا ہے۔ عمران خان کو سیاست کی خارزار وادی میں 20 سال کا عرصہ ہو رہا ہے لیکن ابھی تک وہ اپنی انا اور ضد پر کنٹرول حاصل نہیں کر سکے جبکہ کسی بھی سیاستدان یا کامیاب انسان کیلئے چھوٹی انا اور ضد کو ختم کرنا بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔ سیانے مثال دیتے ہیں کہ جو درخت پھل دیتا ہے وہ جھک جاتا ہے۔ عاجزی انسان کو اصل میں بلندی عطا کرتی ہے۔ عمران خان گزشتہ 15 دنوں سے دھرنوں سے خطاب کر رہے ہیں جس میں وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف بڑی سخت زبان استعمال کر رہے ہیں حالانکہ وہ ملک کے ہیرو اور بڑے سیاستدان ہیں اس لئے انہیں اب بڑے حوصلے اور بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہئے جبکہ اس سے قبل اُن میں ایک زمانے میں عاجزی بھی پائی جاتی تھی۔ بہرحال ملک کی حالت آج بڑی تیزی سے خرابی کی جانب بڑ رہے ہیں اس میں جہاں عمران خان اور طاہر القادری کی انا کا مسئلہ ہے تو وہاں پر وزیراعظم نواز شریف بھی شامل ہیں جنہوں نے اب مستعفی نہ ہونا اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ میاں نواز شریف یقیناً منتخب وزیراعظم ہیں قوم نے ان کو ووٹوں کے ذریعے منتخب کیا ہے لیکن ’’میں نہ مانوں‘‘ اب عمران اور طاہر القادری کو کون سمجھائے کہ بھائی کچھ تو اللہ کا خوف کرو آخر منتخب حکومت کے سربراہ کو ہٹانے کا بھی آئین اور قانون میں کوئی تو طریقہ ہو گا، خدا کیلئے آئین کی بات کریں لیکن دونوں قائدین ہَوا کے گھوڑے پر سوار سبیلِ قوم اب زبردست اضطراب کا شکار ہے۔ کاش آج ہمارے قائد ڈاکٹر مجید نظامی زندہ ہوتے تو ان کو سمجھاتے کہ تم کیا کر رہے ہو، کیا ملک کو دوبارہ ٹکڑے کرنا چاہتے ہو۔ شیخ مجیب کے بھی یہی 6 نکات تھے جنہوں نے ملک کو آخر دو ٹکڑے کر دیا تھا۔ شیخ مجیب کی بھی یہی ضد تھی کہ مجھے وزیراعظم بنا دو کیونکہ بنگالیوں کے ساتھ بڑی زیادتی کی گئی ہے۔ شیخ مجیب کی ضد اور ہٹ دھرمی ہی تھی کہ کچھ اپنے غداروں اور کچھ باہر کے غداروں نے سقوط ڈھاکہ برپا کرا دیا اور ملک ہمیشہ کیلئے دو ٹکڑے ہو گیا۔ آج ملک کے تمام بڑے سیاستدان عمران خان اور طاہر القادری کو اپیل کر رہے ہیں کہ یہ باتیں مذاکرات کے ذریعے حل کی جائیں۔ خدارا دونوں بڑے رہنمائوں کو اب یہ دھرنے ختم کر کے مذاکرات شروع کر دینے چاہئیں کیونکہ اب حکومت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے جبکہ ایک تیسری بڑی طاقت بھی اس ڈرامے کا ڈراپ سین کرنے کیلئے تیار ہو رہی ہے۔ خدا نہ کرے اگر ایسا ہو گیا تو پھر قائد کا یہ پاکستان پھر سے کسی بڑے حادثے کا شکار نہ ہو جائے اور پھر نہ تو عمران خان کے کچھ ہاتھ میں آئے گا اور نہ ہی طاہر القادری کا خواب پورا ہو گا۔ خدا تعالیٰ اس پاک وطن کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ آمین!

ای پیپر دی نیشن