کتنے دن بیت گئے ہیں کہ شہر اقتدار سے ایسی ایسی تقاریر کی گھن گرج سنائی دے رہی ہے کہ ہر لمحہ ’’خدا خیر کرے‘‘ کے الفاظ منہ سے نکلتے ہیں۔ ہمارے کالجوں سکولوں میں ہر سال تقریری مقابلے ہوتے ہیں اور بعض اوقات مباحثے بھی ہوتے ہیں۔ ان تقریروں اور مباحثوں کا ایک ڈیکورم ہوتا ہے۔ تقریری مقابلوں میں حصہ لینے والوں کو پہلے بتا دیا جاتا ہے کہ تہذیب و اخلاق سے گرے ہوئے الفاظ کے استعمال کی اجازت نہیں۔ تقریر مقررہ وقت کے اندر اندر اختتام پذیر ہو جانی چاہئے۔ وارننگ کی گھنٹی اور آخری گھنٹی بجنے کے بعد مقرر کو بولنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ جتنے دنوں سے شہر اقتدار میں تقریری مقابلے شروع ہوتے ہیں اس دن سے ہم اس انتظار میں ہیں کہ مقررین کے لئے کوئی وارننگ کی گھنٹی ہی بجا دے کہ وقت ختم ہونے والا ہے۔ سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے حتیٰ کہ نماز پڑھتے بھی دھیان کنٹینر سے اٹھنے والی تقریروں کی طرف ہی رہتا ہے۔ کتنے دنوں سے میری یہ حالت ہو چکی ہے کہ ٹی وی پر یہ تقریری مقابلے دیکھ دیکھ کر میری گردن تھک چکی ہے۔ میرے بچے بھی ان تقریری مقابلوں کے مستقل سامعین بن چکے ہیں۔ وہ بھی ’’اللہ خیر کرے، اللہ خیر کرے‘‘ کے الفاظ کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ میرے گھر میں ایک صوفہ سیٹ ہے، جس کے سامنے ٹی وی نصب کیا گیا ہے۔ میں مستقل طور پر اس صوفے پر قابض ہوں۔ میں اس صوفے کو کبھی کرسی بنا لیتا ہوں، کبھی اسے چارپائی سمجھ لیتا ہوں اور کھانے کے وقت یہ میرے لئے ڈائننگ ٹیبل کا کام دیتا ہے۔ جناب عمران خان اور شیخ الاسلام مولانا طاہرالقادری اپنے اپنے کنٹینرز میں رہائش پذیر ہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں نے صوفے پر دھرنا دیا ہوا ہے۔ میری بیگم مجھے دھمکی آمیز لہجے میں کہتی ہے کہ خدا کے لئے دھرنا ختم کر دو۔ پرچے دیکھ لو، اپنے مسودات پر نظرِثانی کر لو۔ میں اپنی بیگم سے کہتا ہوں۔ میں اپنا جمہوری حق استعمال کر رہا ہوں۔ میں جمہوریت کو بچانے کے لئے ٹی وی دیکھتا رہتا ہوں۔ میری بیگم کہتی ہے کہ جمہوریت کے لئے ہمارے سارے سیاستدان ہمیشہ ہی سے سرگرم رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدان جمہوریت کی حفاظت میں پارٹیاں بھی تبدیل کر لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ فوجی آمروں کی جمہوریتوں میں بھی وزیر مشیر بن جاتے ہیں۔ بس ان میں ایک ہی قدر مشترک پائی جاتی ہے کہ جمہوریت کے ثمرات اپنی ذات تک محدود رکھتے ہیں اور انہیں عوام کی پہنچ سے دور رکھتے ہیں۔ جمہوریت ہی میں بجلی، گیس، پٹرول اور دیگر اشیائے خوردنی مہنگی ہوتی ہیں۔ جمہوریت ہی میں لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ جمہوریت ہی میں دن دہاڑے قتل و غارت ہوتے ہیں اور ڈاکے پڑتے ہیں۔ شہر اقتدار میں منعقد ہونے والے تقریری مقابلوں سے جو چیز ہمیں سمجھ آ رہی ہے، وہ جمہوریت کا انتقال ہے۔ جمہوریت پہلے بھی ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں انتقال کرتی رہی ہے۔ جمہوریت ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں دیکھیں کب انتقال کرتی ہے لیکن گزشتہ دنوں ہمارے اردو بازار کے ایک دوست محمد علی صاحب کے والد محترم محمد عمر فاروق صاحب (پروپرائٹر نیو بک پیلس) کا انتقال فرما گئے۔ موصوف نہایت کم گو انسان تھے اور ہر وقت تسبیح پر اوراد و وظائف میں مصروف رہتے۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین) محمد علی عمر فاروق صاحب کے فرزند ارجمند ہیں۔ محمد علی صاحب کے دادا جان شیخ بشیر صاحب نے 80-85 سال قبل کتابوں کا کام شروع کیا تھا۔ ان کی دکان پر حافظ محمود شیرانی، ڈاکٹر فقیر محمد فقیر، مولانا اصغر علی روحی کے صاحبزادے ڈاکٹر رانا بہاء الحق اور دیگر اساتذہ کرام تشریف لاتے۔ محمد علی صاحب اپنے باپ دادا کے کام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ایم اے کے مضامین پر نئی نئی کتابیں شائع کرتے ہیں۔ اپنے مصنفین کا خیال رکھتے ہیں۔