آئینی غیر آئینی کی بحث

ماڈل ٹائون میں معصوم شہریوں کا قتل عام کیوں کیا گیا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب تو شاید سب حکمرانوںکو معلوم ہو مگر ہمت اور حوصلہ نہیں رہا کہ سینے پر ہاتھ مار کر اعترافِ حقیقت نما بھڑک مار سکیں۔علامہ طاہرالقادری کی آمد کی خبریں عرصہ سے آرہی تھیں‘ خبروں کیساتھ ساتھ ان کے انقلابی ارادوں کی خوشبو بھی تھی۔ شریف حکمران اپنے پرانے مرشد کی ادائوں سے آگاہ بھی تھے۔ خوفزدہ بھی اور نفرین بھی کہ ان کے سامنے مٹی کی نچلی تہہ سے پھوٹنے والا یہ پودا علم و دانش اور رہنمائی کا برگد بن گیا جس کی شاخیں کرہ ارض کے سارے ملکوں کے طول و عرض تک جا پہنچیں۔ جس کے منہ سے نکلنے والے الفا ظ قارونوں کے کارخانوں کی مشینوںسے نکلنے والی اشیاء ضروری سے کہیں زیادہ قیمتی اور نایاب ہیں انہوں نے سوچا اس مولوی نے انقلابی ٹر ٹر کے ذریعہ چین برباد اور کھایا پیا حرام کر دینا ہے۔ اس کو ایسا مزا چکھائو کہ اس کی نسلیں یاد رکھیں اور یہ خود خوفزدہ ہوکر دبک جائے۔ سو اس بھن بھن کرتے جھینگر اور ساتھی مچھرمکھیوں کو کچل دینے کا حکم صادر ہوا۔ یہ حکم کس نے صادر کیا؟ یہ اندریں حالات ایک عقدہ اور معمہ بن چکا ہے۔ آدھی رات‘ چند بے گناہ لوگ! قیامت ڈھانے کیلئے سینکڑوں مسلح دستے‘ جو ہوا سب کی آنکھوں نے دیکھا اور بھگتا۔ چیخ و پکار ہے بے کار مچی تو منہ میں آہنی غنچہ ٹھونس کر خاموش کرنے کی کوشش کی گئی۔ جو رویا دھویا اس کو دھر لیا گیا مگر زبان پہ مہر لگانے سے کیا ہوا حاصل کہ آہ درد و فسانہ بنی جہاں کیلئے۔ بات دھمکی کے بدبودار جھونکے سے چلی اور دھونس کا گردباد بنی مگر بے قابو ہوکر اس صحرائی آندھی میں ڈھل گئی جس کی تیزابی ریت سے اسلام آباد کے گلی کوچے اور ریڈ زون الٹ گئی۔ اب فرماتے ہیں ہر طرف بدبو ہے!ْ ماشاء اللہ سبحان اللہ! ٹی وی والوں کی عیش ہے بنے بنائے سیٹ‘ سجی سجائی محفل‘ بسا بسایا میلہ‘ اینکر اور دانشور ‘ دلائل کے طومار‘ قمقموں کی پنگ پانگ‘ آئینی غیر آئینی بحث ‘ ’’کباب سیخ میں ہیں‘ ہم کروٹیں ہر سو بدلتے ہیں۔ جو جل اٹھا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں‘‘ کی تصویر ہرحکمران غصہ میں … چاہتا ہے کہ سڑکوںپر مٹکتی میلی کچیلی حشرات کو ایک ہی جھٹکے سے فارغ کر دے مگر بس نہیں چلتا۔ کچھ سیاسی پہلوان جوابی ڈنڈ بیٹھکوں کے ذریعہ شو آپ پاور کا منظر بنانے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ جلسوں‘ جلوسوں‘ عدالتوں میں دھکے کھاتی الیکشن دھاندلی کو شہیدوں کے خون کی رعدِ تپاں اور آنسوئوں کی گھٹا نعمت غیر مترقبہ کی مانند میسر آئی۔ یوں ایک نہ شد دو شد دھرنے پہ دھرنا ٹھا دھرنا! اب کہتے ہیں سکرپٹ پہلے سے طے شدہ تھا۔ بھئی ایسا ہے تو اس میں گلو بٹ اور رانا تو آپ نے ڈالا ہے۔ ڈرامے میں کنٹینر کا ڈائنوسار بھی آپ نے داخل کیا۔ کل دانت پیس کر کاٹنے کو دوڑتے تھے‘ اب جو آنکھوں میں ریت رڑکی ہے تو لبوں پر پپڑی جمی ہے مگر دل میں گرہ پڑی ہے کہ یہ سین عارضی ہے۔ غصے کا پنجہ کھونٹی پر لٹک رہا ہے۔ جونہی حالات نے رہائی دی مخالفوں کی خیر نہیں مگر شاید اب کی بار قدرت کو کچھ اور منظور ہے کیونکہ بہت ہو چکا! آئینی اور غیرآئینی کی ساری بحیثیں انفرادی مفاد کی کلی پر گھومتی ہیں‘ جس نے گاجریں کھائی ہیں ان کے پیٹ میں آئین کا مروڑ اٹھ رہا ہے۔ جمال گوٹے کی طرح۔ مبادا بند ٹوٹ جائے اور سب کھایا پیا ہڑپ شدہ مال کرتوت کی شکل میں باہر نکل کر عکس جمال اختیار و اقتدار کی طرح نمایاں ہو جائے اور پھر عوام کا وحشی انتقام اپنی فطری گزرگاہ بتاتا سب کچھ کندن بنانے والی بھٹی میں ڈال دے۔ یہ خوف اور اور ڈر ہے جس کے سبب ساری جونکیں یک مشت ہو گئی ہیں اور ان دیکھے سیلاب کی دہشت سے خس و خاشاک کی مانند کانپ رہی ہیں۔ بنیادی سوال پھر وہی ہے اے آئینی جونکو! معصوم اور بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیوں تھا؟

ای پیپر دی نیشن