لاہور (محمد دلاور چودھری) ملکی تاریخ میں پہلی بار آرمی چیف کی کسی سیاسی معاملے میں ثالثی کے بعد ایک بڑا سیاسی بحران آج صحیح معنوں میں کسی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ آرمی چیف کی ثالثی نے میڈیا، سوسائٹی کے دوسرے کارنرز اور بعض ادارے کے ان خدشات کو کافی حد تک کم کیا ہے جن کا اظہار وہ کسی غیر آئینی اقدام کے حوالے سے کرتے چلے آرہے ہیں اور یہ تاثر کسی حد تک پختہ ہوا ہے کہ فوج سیاسی بحران کا سیاسی حل چاہتی ہے اسی لئے وہ پہلی بار ثالثی کے اس عمل میں آئی ہے۔ آرمی چیف سے ملاقات کے بعد عمران خان ابھی تک وزیراعظم کے استعفٰی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں کم از کم ایک بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ ہمارے سیاست دان سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کے اہل نہیں۔ جمہوری معاشروں میں سیاسی بحران آتے رہتے ہیں اور ان بحرانوں کو سیاست دان افہام و تفہیم اور بردباری سے حل کر کے سیاسی اور جمہوری عمل کی مضبوطی کا باعث بنتے ہیں اور عوام کا سسٹم پر اعتماد بڑھاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اگرچہ پارلیمنٹ سسٹم کے لئے ایک آواز ہوئی لیکن اس کی قراردادوں نے مفاہمت کی بجائے مزاحمت کی فضا پیدا کی دوسری طرف عمران خان کا بے لچک رویہ جو پارلیمنٹ اور انتخابی عمل پر یقین تو رکھتے ہیں لیکن پارلیمنٹ کے کسی عمل کی بجائے ’’لشکر کشی‘‘ کے ذریعے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وزراء اور مذاکراتی ٹیم ہے جو بالغ نظری سے بالکل عاری نظر آتی ہے یہ وہ سیاسی ڈیڈ لاک کی صورتحال ہے کہ جس میں معاملہ تشدد یا کسی دباؤ سے حل ہوا تو اس سارے عمل میں ہو سکتا ہے ہر کوئی اپنی جیت کا دعویٰ کرے لیکن بری طرح ہارنے والے سیاستدان ہوں گے اور ہمارا زنگ آلود سیاسی نظام ہو گا کیونکہ وہ عوام پر پوری طرح ثابت کر دینگے کہ وہ بڑے ملکی مسائل تو ایک طرف آپس کے سیاسی تنازعات بھی حل کرنے سے قاصر ہیں اور یہ تاثر یقیناً جمہوریت کے لئے نیک شگون نہیں ہو گا۔ آج شاید سیاستدانوں کے لئے موقع ہے کہ وہ اپنی کچھ نہ کچھ ساکھ بچا لیں کل شاید یہ بھی میسر نہ ہو۔ سیاستدانوں کو اس پر ضرور سوچنا چاہئے۔ اسی طرح میڈیا اور دوسرے اداروں کو بھی غیر آئینی اقدام کے خدشات کی رٹ لگاتے ہوئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی اصل وجوہات کو ضرور جانچنا ہو گا۔ ہو سکتا ہے طاہرالقادری وہی لائن اختیار کریں جو عمران کی ہو لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہئے وہ ایک عرصے سے الیکشن کے عمل سے باہر ہیں اور ان کے انتخابی سیاست میں آنے کے فی الحال امکانات بھی نہیں یعنی حکومت، عمران خان اور دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ان کے پاس کھونے کو بھی کچھ نہیں۔ سیاستدانوں کو یہ بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔