سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ اس سطح پر نہ آسکیں جہاں ہر مسئلے کا حل نکل سکے

اسلام آباد (عترت جعفری) جمعرات 28 اگست پاکستان کے تاریخ میں درخشاں دن کے طور پر یاد کیا جائے گا یا قوم اسے اپنی یادداشت سے کھرچنے کی کوشش کرے گی۔ اس کا فیصلہ تو وقت بتائے گا تاہم یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ اب اس سطح پر نہیں آسکیں جہاں ہر مسئلے کا حل نکل سکے۔ماضی کی طرح آج بھی ’’ریفری‘‘ کے طور پر فوج کی طرف دیکھا گیا حکومت اور دھرنا والے خود کسی معاہدہ پر نہ پہنچ سکے۔اب جو بھی معاہدہ ہوگا اس میں یقینی طور پر کچھ چیزیں حکومت کو چھوڑنا پڑیں گی۔عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے کچھ مطالبات بھی تسلیم نہ ہوسکیں گے۔اس طرح کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر سیاستدان کوئی معاہدہ کرلیتے تو یہ جمہوریت سیاسی نظام اور سیاسی عہدوں کی عزت و تکریم کے لئے بھی نیک شگون ہوتا۔آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان گزشتہ 3 دن میں دوبار ملاقاتیں ہوئیں۔ سرکاری بیانات تشنہ تھے تاہم ملاقاتوں کی تصاویر سے حقیقت حال آشکار ہوتی تھی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی گزشتہ روز دھرنوں کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت میں جو ریمارکس سامنے آئے اس سے بھی حکومت کے پاس دھرنا دینے والوں کے خلاف کسی بھی قسم کے آپریشن کے لئے گنجائش ختم ہوگئی تھی۔یہ بات کافی حیران کن ہے کہ وزیراعظم  کی طرف سے آرمی چیف کے کردار ادا کرنے کی درخواست کے بارے میں پہلی اطلاع وفاقی  وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے ذریعے منظر عام پر آئی جبکہ ملاقات کے سرکاری بیان میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا تھا اور اس کے بعد عمران خان اور طاہر القادری دونوں نے اجتماعات سے خطاب کرکے آرمی چیف کی ثالثی کا ذکر کیا۔
ریفری

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...