کچھ عرصہ پہلے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کے چند کورسز کیے تو کپڑے اور دھاگے کے حوالے سے کافی معلومات حاصل ہوئیں۔ اصل اور نقل کپڑے کی جہاں پہچان ہوئی وہاں انکے ہول سیل ریٹس کے حوالے سے بھی بہت سی اہم چیزیں سامنے آئیں، لید ر کے بیگ بنانے سیکھے تو لیدر کی قیمت اور اسکی مصنوعات کی قیمت کا بھی اندازہ ہوا۔ اگر کپڑے اور لیدر کی مصنوعات کی بات کریں تو اس وقت مارکیٹ میں دو نمبر نہیں دس نمبر کی اشیاءدستیاب ہیں،کپڑا انتہائی ناقص ہے۔ پیور اور خالص کہہ کر بیچے جانےوالے کپڑوں میں بھی ملاوٹ ہے لیکن وہ اصل قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔ ملاوٹ والا کپڑا سستا پڑتا ہے اس میں اور اصل کپڑے میں بہت معمولی فرق ہوتا ہے جو عام خریدار کو پتہ نہیں چلتا۔ اچھا کپڑا پاکستان میں بنتا ہے۔ اور پھر اس کو باہر کی مارکیٹس میں بیچ دیا جاتا ہے وہاں سے ان ملکوں کے لوگو لگاکر واپس پاکستان کو بیچا جاتا ہے اور اس طرح اس کو مہنگے داموں خریداجاتا ہے۔ عربی عبایوں کا خاص قسم کا کپڑا پاکستان میں بنتا ہے اور باہر کی دنیا میں فروخت ہوتا ہے۔ شاہ عالم مارکیٹ میں جب وہ کپڑا معلوم کروایا گیا تو پتہ چلا کہ خاص قسم کے اس کپڑے کی فروخت پاکستان میں منع ہے۔ لیکن چھپا کر اور بلیک میں وہ کپڑا بیچا جاتا ہے یعنی وہ کپڑا جسے ہم خود بناتے ہیں اس پر ہمارا خود کا بھی اختیار نہیں کہ اس کو ہم سیدھے اور جائز طریقے سے مارکیٹ میں بیچ اور خرید سکیں۔ عام مارکیٹ میں بیچا جانیوالا نقلی مال اصل قیمت کے ساتھ بیچنے والوں کی پانچوں گھی میں ہیں کیونکہ انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اسی طرح مارکیٹ میں بڑی بڑی برانڈز پر بکنے والے جوتوں میں استعمال ہونے ولا لیدر ٹائپ میٹریل بھی اصلی نہیں ہوتا۔ لیدرائیٹ بھی اتنا ناقص استعمال کیا جاتا ہے کہ جوتا اگر کچھ دیر استعمال نہ کیا جائے تو پڑا پڑا ہی خراب ہونے لگتا ہے۔ یہ لیدرائیٹ دو سو سے لے پانچ سو روپے تک گز کے حساب سے ملتا ہے اور ایک گز میں تقریباً پچاس کے قریب چپلوں کے اوپر کے حصے تیار کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح ان جوتوں کے تلوے بھی بہت سستے تیار کروائے جاتے ہیں۔ میں نے جب ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں سیمپل کے طور پر جوتے تیار کئے تو یہ جوتے کے تلوے سو روپے میں خریدے تھے جو کہ اسکی ہول سیل قیمت نہیں تھی ۔ اس ایک چپل کی تیاری میں میرے تقریبا دو سو روپے خرچ ہوئے۔ یہ وہ لاگت ہے جو ایک پیس بناتے ہوئے مجھے خرچ کرنا پڑی اور یہ وہ لیدر تھی جو ہزار روپے گز کے حساب سے خریدی گئی تھی ہول سیل پر یہ میٹریل اور بھی سستا ملتا ہے۔ لیکن بازار میں انھی چپلوں کی قیمت اٹھارہ سو دو ہزار سے کم نہیں ہوتی۔ یہ جوتے اتنے غیر معیاری ہیں کہ بہت جلد ٹوٹ جاتے ہیں۔ ان میں استعمال کیے جانےوالا لیدر ہول سیل مارکیٹس میں انھی ڈیزائینوں کے ساتھ موجود ہے۔ مارکیٹ میں دس نمبر کا مال خوب بک رہا ہے اور کاروباری حضرات لاکھوں نہیں کروڑوں کے مالک بن چکے ہیں۔ پیکٹوں میں ملنے والی اشیا کی قیمتیں بھی روز بروز بڑھ رہی ہیں مگر انکے اندر موجود چیزوں کا حجم بھی کم ہوتاجا رہا ہے۔ دس روپے میں ملنے والا صابن اب پچاس روپے میں ہے۔ مگر اسکے حجم میں کمی کر دی گئی ہے۔ اسی طرح ریڈی ٹو ±کک کے پیکٹس ، خشک دودھ، بسکٹ ، جوسز اور دیگر اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ بھی ہو رہا ہے اور میٹریل میں کمی بھی کی جا رہی ہے۔ ایسا کیو ں ہے کہ جب قیمت بڑھا دی جاتی ہے تو اس کی مقدار بھی کم کر دی جاتی ہے۔ اصولاً قیمت بڑھانے کیساتھ اس کا اصل حجم بھی برقرار رہنا چاہیے۔ کاسمیٹکس بھی تمام کی تمام انٹرنیشنل برانڈز کے لیبل کیساتھ پاکستان میں ہی گھروں میں تیار اور پیک کی جاتی ہیں۔ جس میں شیمپو ، لوشن ، وائیٹنگ کریمز، مسکارہ ، لائینر اور دیگر اشیاءبھی غیر معیاری ہیں۔ اور مختلف جلدی بیماریوں کا سبب بن رہی ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا ءاور مصالحہ جات میں بھی ملاوٹ معمول کی بات بن چکی ہے۔ ایسا کوئی ادارہ نظرنہیں آتا جو ان بڑی کمپنیوں کی بنائی گئی اشیاءکی قیمتوں کو کنٹرول کرے اور کوالٹی اور کوانٹٹی (مقدار) کو یقینی بنائے۔ کپڑے میں ہونیوالی ملاوٹ ، جوتوں میں استعمال کیا جانیوالا ناقص میٹریل اور پیکٹوں میں ملنے والی چیزوں کی بڑھتی قیمتیں اور مقدار میں کمی معاشی دہشت گردی ہے۔ پوری قیمت میں آدھی چیزیں بیچنا اور پوری قیمت میں دو نمبر مال دینا لوگوں کی محنت اور حق حلال کی کمائی پر ڈاکہ ڈالنے کے برابر ہے۔ ان برانڈز اور بڑی کمپنیوں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالے جاتے۔اس لیے کہ یہ کمپنیاں ، فیکٹریاں حکومتی عہدیداران کی اپنی ہیں یا عزیز رشتہ داروں اور دوست احباب کی۔ اس طرف توجہ کیوں نہیں دی جاتی۔ یہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جس سے عام آدمی کی ساری بچت نکل کر ان بڑی کمپنیوںکے بینک بیلنس بڑھانے میں کام آتی ہے۔ صارفین اپنے حق کیلئے آواز بلند نہیں کرتے کیونکہ انہیں مناسب پلیٹ فارمز مہیا ہی نہیں کیے جاتے۔ کنزیومر کورٹس کا سنا تھا کہ بنے ہیں لیکن ان تک رسائی کیسے ہو گی اسکے بارے میں عوام کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ کنزیومر کورٹس ہر یونین لیول پر بنائے جانے چاہیے تاکہ ان تک رسائی ممکن ہو ناقص اور دونمبر اشیاءکی شکائت کی جا سکے اور جہاں سے فوری اور سستا انصاف مل سکے۔ ایک گزارش حکومت سے یہ بھی ہے کہ بجلی کے بلوں پر ناجائز ٹیکس بھی ایک دہشت گردی ہے۔ چار ہزار کے بل پر چار ہزار کا ٹیکس کہاں کا انصاف ہے ؟ عوام کو ہر طرح کی دہشت گردی سے بچانا حکومت کا فرض ہے جہاں یہ عہد کئے جاتے ہیں کہ دہشتگردوں کو ختم کرنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے وہاں عوام کو ان معاشی دہشتگردوں سے محفوظ کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت بھی ہے۔