کوہ ساروں ¾سنگلاخ پہاڑوں ¾سنگین چٹانوں اور مشکل ترین زندگی سے دو چار شیر دل بلوچوں کے بلوچستان کا سیاسی منظر نامہ حیران کن انداز میں کروٹ لے رہا ہے۔ باغی جلاوطن بلوچ رہنما برہمداغ بگٹی کی طرف سے مسلح مزاحمتی جنگ چھوڑ کر حکومت سے مذاکرات پر رضامندی کااظہار بلوچستان میںبرسوں سے جاری آگ اور خون کا کھیل ختم کرنے کے لئے ایک غیرمعمولی اشارہ ہے ¾جس کا ہر سطح پرخیرمقدم کیا جانا چاہئے۔ برہمداغ بگٹی نے پہلی بارخوشگوار باتیں کی ہیں ¾متفقہ بلوچ جرگہ کے سربراہ خان آف قلات سلیمان داﺅدکو کشمکش سے دور رکھنے کی کوششیں بھی بارآور ثابت ہو رہی ہیں ۔ گزشتہ دنوں خان آف قلات کے چچا پرنس محی الدین بلوچ کئی دن تک لندن میں ان کی ذہن سازی کرتے رہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیںاور کل تک وہ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے ہاتھ ملانے کے روادار نہیں تھے اور اب وہ ان کے ایک وزیر ثنااللہ زہری سے لندن میں ملے ہیں اور لچکدار رویے کا اظہار کیا ہے۔اسلام آباد ¾ راولپنڈی اور ہتھیاربندوں اور جلاوطنوں کے درمیان فاصلے کم ہونے سے حالات میں بہتری آرہی ہے۔ ملک سے باہر بیٹھے بلوچ عسکریت پسندوں کا مائنڈ سیٹ تبدیل ہورہا ہے جو سمجھنے لگے ہیں کہ وہ باہر رہ کر اور برسرپیکار رہ کر ہمیشہ خسارے میںرہیں گے۔ اس لئے وہ مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے پرتول رہے ہیں۔دوسری طرف فوج نے بھی اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کیا ہے اوریہ سوچنے لگی ہے کہ مسلسل طاقت کے استعمال سے مسئلے کا حل نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ہتھیار وں کی زبان ترک کر کے بلوچوں کے میز پر آنے سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں سرگرم عمل غیرملکی طاقتوں اور ان کے گماشتوں کے لئے اب زمین تنگ پڑ جائے گی۔اس تبدیلی کا سہرا کسی حد تک وفاقی حکومت کے سربندھتا ہے ¾ خاص طور پر فوج کی تبدیل شدہ پالیسی کو سراہنا چاہئے۔ سدرن کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کوبھی کریڈٹ دینا ہوگا کہ انہوں نے بلوچستان اور بلوچوں کے حوالے سے فوج کا روایتی ذہنی نقشہ پس پشت ڈال کربلوچی نفسیات سمجھتے ہوئے محبتوں کی زبان میں بات کی اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوئے۔ جہاں سختی کی ضرورت تھی سختی اپنائی اور عموماًمحبت کی زبان میں بات کی اور بلوچوں کے دل جیت لئے۔
بلوچستان کی ایک کروٹ کی شہادت تو ہم خود ہیں کہ جب اگست 2003 ءمیں نذیر لغاری ¾مشتاق فریدی ¾سینیٹرمنظور گچکی اور راقم الحروف ہر دل عزیزدوست رﺅف ساسولی کی رہنمائی میں نواب اکبر بگٹی سے ان کے بڑے صاحبزادے سلیم اکبر بگٹی کے سانحہ ارتحال پر تعزیت کے لئے ڈیرہ بگٹی گئے تھے۔ یہ طویل اور تھکا دینے والا سفر تھا مگر سوئی اور ڈیرہ بگٹی کو پہلی بار دیکھنے اور نواب صاحب شہید کو تیسری بار ملنے کی تمنا میری ساری کلفتوں پر غالب تھی۔ نواب صاحب کے پوتے براہمداغ بگٹی سے پہلی اورآخری ملاقات اسی سوگوار ماحول میں ہوئی۔ڈیرہ بگٹی کی کچی پکی حویلی ملک بھر سے پرسے کے لئے آئے ہوئے نامور لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔بلوچی روایات ¾بلوچی خد و خال ¾ حلیئے اور آن بان میں گندھا ہمارا یہ نوجوان میزبان اپنے دادا سے سیاسی اور نظریاتی اختلاف تو رکھتا تھا لیکن کہیں سے بھی نہیں لگتا تھا کہ یہ ملنساربلوچ نوجوان کسی آن اسلام آباد یا راولپنڈی کے خلاف علم بغاوت بلند کر سکتا ہے۔ یہ ایک تعزیتی اجتماع تھا لیکن میں نے محسوس کیا کہ اس نازک موڑ پرجنرل پرویز مشرف کی ”چڑھ دوڑو اور سب کچھ مٹا دو“والی پالیسی کے ذریعے بلوچستان اور بلوچوں کو کسی اندھے کنوئیں میں دھکیلنے کی سبیل کی جا رہی ہے۔ نذیر لغاری اور میں نواب صاحب کی رمزوں سے آشنا تھے ¾ان سے تفصیلی نشست رہی اورہمیں لگا کہ یہ ہماری نواب صاحب سے آخری ملاقات ہے۔ان سے باتیں کر کے ہمیں سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ بلوچستان میں پھیلایا گیاملکی اور غیرملکی بارود پھٹنے اورآگ بھڑکنے کو ہے۔ ایک زمانے میں اشرافیہ کی آنکھ کے تارے نواب شہباز اکبر خان بگٹی کوجنرل پرویز مشرف کی انا نے ریاست کے خلاف لاکھڑا کیا۔ مری انہیں اپنے پہاڑوں پرلے گئے جہاں سے وہ پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے ۔ براہمداغ نے اپنے محبوب دادا کی شہادت پر وہی کیا جو بلوچستان کی روایت تھی اور حالات کا تقاضا بھی یہی تھا "انتقام۔" چالیس کی دہائی میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا بلوچوں کی سرزمین پر پرتپاک استقبال اوران سے والہانہ مصافحہ کرنے والے عظیم انسان کا پوتا براہمداغ بگٹی اکیسویں صدی میں ہتھیار اٹھا لیتا ہے اور اپنے دادا شہید کے سر پرستوں ¾ اسلام آباد اور راولپنڈی کے خلاف بغاوت کااعلان کر دیتا ہے۔ قیام پاکستان سے جنرل راحیل شریف کے دور تک تین نسلوں کا سفر ¾اطاعت اور عنایت سے شروع ہوا اور بغاوت تک جا پہنچا۔ کیا کبھی کسی نے سوچا ¾ یہ بغاوت کیوں ہوئی ¾بلوچ پہاڑوں پر کیوں گئے ¾بلوچوں کو پہاڑوں سے اتار کر قانون کے دائرے میں لانے والاخود بندوق اٹھانے اور پہاڑوں پر چڑھنے پر مجبور کیوں ہوا ¾پھر وہ بے کسی کی موت ماردیا گیا ¾یہ سازش تھی یا سانحہ اور اس کے پیچھے کون تھااور اس کے مقاصد کیا تھے ؟ یہ حقائق منظرعام پر آنے چاہئیں۔
بلوچستان میں برف پگھل رہی ہے ¾براہمداغ بگٹی نے زمینی حقائق کا ادراک کر لیا ہے ¾گرینڈ بلوچ جرگہ کے سربراہ خان آف قلات داﺅد سلیمان بھی معمولی تحفظات کے ساتھ بلوچستان میں پاکستانی پرچم کے سائے تلے زندگی گزارنے پر راضی ہیں۔بلوچ عوام نے بھی فوج اورحکومت کی طرف سے محبت کا جواب محبت سے دیا ہے۔ اب نہیں تو کبھی نہیں ¾ہمیں دانشمندی سے آگے بڑھنا ہے۔ اب طاقت نہیں تدبیرہی بلوچستان میں نصف صدی سے پھیلی انارکی کو نقطہ انجام تک پہنچانے کا وسیلہ بن سکتی ہے۔ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کرکے ہمیں پیش رفت کرنی چاہئے۔پرامن بلوچستان ہماری راہیں دیکھ رہا ہے۔