لاہور (سید شعیب الدین سے) ایف آئی اے نے قریباً 4 ارب روپے مالیت کی زرخیز 984 کنال 16 مرلے زرعی زمین محکمہ مال کی ملی بھگت سے حاصل کرنے کے سکینڈل کا سراغ لگا لیا ہے۔ ملزموں نے 200 سال پرانے ہندو ٹرسٹ کی زمین لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی غلط توجیح کرکے 1947ء میں ہندو ٹرسٹ کے مسلمان ہوجانیوالے نگران کے بیٹے منور حسین کے نام کردی تھی۔ یہ سارا کام پرانی تاریخوں میں کیا گیا جس کیلئے ریونیو ریکارڈ میں ردوبدل کیا گیا۔ ایف آئی اے نے منور حسین، محکمہ مال کے 5 افسروں، اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج کرکے نائب تحصیلدار رانا ریاض کو گرفتار کرلیا ہے۔ اس سکینڈل میں اسسٹنٹ کمشنر دیپالپور آصف رئوف خان اور ضلعی انتظامیہ اوکاڑہ کے اعلیٰ افسر بھی ملوث بتائے جاتے ہیں۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق تحصیل دیپالپور کے علاقہ رام پرشاد کی 984 کنال 16 مرلے زمین کو فلاحی مقاصد کیلئے مختص کرکے 18ویں صدی کے اوائل اداسی شیرائن ٹرسٹ قائم کیا گیا تھا۔ 1853ء میں جب ریونیوریکارڈ مرتب ہوا تو یہ ٹرسٹ اسی میں درج ہوا۔ ٹرسٹ کا ذمہ دار جس مہنت کو بنایا جاتا تھا اس کیلئے 2 پابندیاں عائد کی گئی تھیں کہ وہ زندگی بھر شادی کرگے گا نہ ہی مذہب تبدیل کرے گا۔ پاکستان بننے کے بعد اداسی شرائن ٹرسٹ کا آخری مہنت منوہر داس تھا جس نے اسلام قبول کرکے نام غلام رسول رکھ لیا اور شادی بھی کرلی۔ 1947ء میںمنوہر داس کے سارے چیلے بھارت چلے گئے۔ وہ بطور مسلمان بھی ٹرسٹ کی ذمہ داری نبھاتا رہا۔ 1952ء میں غلام رسول کی موت کے بعد اس کی بیوی نوراں بی بی اور نوعمر بیٹے منور حسین نے پراپرٹی اپنے نام کرالی۔ کلکٹر منٹگمری (ساہیوال) کو درخواست دے دی کہ جائیداد کی اکیلی مالک ہوں، نمبردار مقرر کیا جائے۔ کلکٹر نے انتقال خارج کردیا۔ اس وقت کے ڈسٹرکٹ متروکہ زمین کمشنر نے سفارشات دیں کہ 8-8 ایکڑ زمین مزارعین میں تقسیم کردی جائے۔ نوراں بی بی اور منور حسین نے فیصلہ چیلنج کردیا۔ 1971ء میں جسٹس ایم ایس ایچ قریشی نے فیصلہ بحال رکھا۔ منورحسین نے سپریم کورٹ میں فیصلہ چیلنج کردیا۔ جسٹس صلاح الدین اور جسٹس انوارالحق نے 1974ء میں اسے اداسی شرائن ٹرسٹ ڈکلیئر کردیا۔ زمین کو محکمہ متروکہ وقف املاک کے دائرئہ اختیار میں دیدیا۔ 1977ء میں منور حسین نے فیصلہ وفاقی سیکرٹری اقلیتی امور کے پاس چیلنج کردیا۔ جنہوں نے لکھا کہ فیصلہ تبدیل نہیں ہوسکتا جس کے بعد وفاقی سیکرٹری کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں 1994ء میں چیلنج کیا گیا۔ 2 اپریل 2003ء میں جسٹس زاہد حسین نے کیس دوبارہ واپس وفاقی سیکرٹری اقلیتی امور کو بھیجا۔ اس فیصلے کو محکمہ متروکہ وقف املاک نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ اپریل 2010ء میںجسٹس ناصرالملک، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس رحمت حسین جعفری نے اپریل 2010ء میں ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔ بعدازاں معاملہ چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ کو ریمانڈ کردیا گیا۔ جہاں معاملہ ابھی زیر سماعت ہے جس کی اگلی تاریخ 9 ستمبر 2015ء ہے مگر اس دوران ملزم منور حسین نے محکمہ مال سے ملی بھگت کرلی اور محکمہ مال نے زمین اس کے نام منتقل کرالی۔ منور حسین کو تحصیلدار نجم حفیظ نے 29 اکتوبر 2013ء کو زمین منتقل کردی۔ منور حسین نے یہ زمین فوری طور پر فروخت کردی۔ زمین کی مالیت قریباً 4 ارب روپے ہے مگر مالیت ایک ارب روپے ظاہر کرکے سرکاری فیس ادا کی گئی۔ ایف آئی اے نے تفتیش مکمل کرکے پٹواری، تحصیلدار کا تمام ریکارڈ قبضہ میں لے کر ملزم منور حسین، تحصیلدار نجم حفیظ، نائب تحصیلدار رانا ریاض، قانون گو اکرم وٹو، ڈیٹا انٹری آپریٹر سہیل اقبال کے خلاف مقدمہ درج کرکے رانا ریاض کو گرفتار کرلیا ہے۔ ایف آئی اے نے مقدمے میں اسسٹنٹ کمشنر دیپالپور آصف رئوف خان کو بھی شامل ٹھہرایا ہے۔