”جہیز“۔۔۔۔۔ ایک ناسور

مہک نذیر - بی ایس (آنرز) پولیٹیکل سائنس اسلامیہ کالج کوپر روڈ لاہور
شادی کے موقع پر بیٹی کو رخصت کرتے وقت اس کے ساتھ تخفے کے طور پر کچھ سازوسامان دینا جہیزکہلاتا ہے تخفے کا لین دین اس میں محبت ہمدردی اور مدد کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی حیثیت کے بڑھ کر یا مجبوری کے تحت دیا جائے تو محبت کے بجائے اختلافات اور بہت سے مسائل کا سبب بن جاتا ہے۔ جیسے کہ آج کل جہیز دینا۔ جو کہ کسی ہمدردی محبت یا مدد کے تحت نہیں بلکہ محض ایک رواج کے پورا کرنے کےلئے دیا جاتا ہے یہ ان والدین کے لئے بوجھ بن جاتا ہے جو کہ جہیز دینے کی حیثیت سے قاصر ہو۔ جہیز کی یہ صحیح رسم معاشرے کےلئے ایک لعنت بن چکی ہے جس سے معاشرے پر بہت زیادہ منفی اثرات پڑرہے ہیں۔آج ہمارے مسلمان طبقے نے جہیز کی لعنت کو گلے کا طوق بنا لیا ہے۔ انہیں صرف کافرانہ اور ظالمانہ رسموں کی فکر ہے۔ جہیز کے نام پر شادی بیاہ میں اخراجات اور مشرکانہ رسوم رائج ہیں ان کا سلام سے دور تک کوئی تعلق نہیں۔ جہیز کے نام پر نقدی اور لین دین غیر مسلموں کا طریقہ ہے یہ خالص ہندوانہ رسم ہے۔ حقیقت تو یہ ہے جہیز ایک لعنت ہے اور ہم مسلمان ہیں۔ اس لعنت کو تہذیب و تمدن سمجھ کر قبول کرلیا ہے اور یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس لعنت نے ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا کردیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ جہیز کی موجود شکل اپنی تباہ کن رسم ہو کر رہ گئی ہے لڑکی کو ماں باپ اپنی محبت و شفقت میں رخصت ہوتے ہوئے جو کچھ دیتے ہیں وہ ان کی مجبوری ہے اگر وہ نہیں دیں گے تو ان کی بیٹی کو سسرال کی جاب سے طعنوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔آج ہمارے ہاں جہیز مطالبے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جہیز کے مطالبہ کو پورا کرنے کیلئے آج کتنے ہی گھر اجڑ چکے ہیں۔ لڑکی کی پیدائش جو کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خوش بختی کی علامت ہے۔ اس کو اس مطالبے نے بدبختی میں تبدیل کر دیا ہے۔ حیرت تو اس پر ہے کہ لڑکی اپنے والدین سے کچھ مطالبہ کرلے تو کرسکتی ہے کہ ماں باپ سے فرمائش کرنا اس کا پیدائشی حق ہے۔ اگرچہ اسے مطالبہ کرتے وقت اپنے والدین کی بساط اور وسعت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ مگر یہ ہونے والے داماد اور اس کے گھر والوں کو یہ حق کسی نے نہیں دیا کہ جہیز کے نام پر لڑکی والوں سے فرمائش کریں۔ اسلام دو ہی صورتوں میں مانگنے کی اجازت دیتا ہے۔ 1 یا تو سائل کا حق دوسرے سے متعلق ہو یا پھر سائل اتنا تنگ ہو کہ اس کا گزر بسر مشکل سے ہوتا ہو اور سوال کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو اس کا سوال کرنا جائز ہے۔ ظاہر ہے ہونے والے داماد کا ہونے والی بیوی یا سسرال پر کوئی حق ہوتا ہے۔ جس کا مطالبہ اس کیلئے جائز ہو۔ لہذا اب دوسری بات تنگدستی والی رہ جاتی ہے جبکہ سماج میں اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ داماد تنگدستی ظاہر کرکے سسرال سے کچھ تقاضا کرے۔ حالانکہ بقدر ضرورت سوال کرنا اسلام میں جائز ہے لیکن اگر دونوں صورتیں نہیں تو ایک قبیح فعل ہے۔رسم جہیز قابل لعنت اور انتہائی حقارت سے دیکھے جانے کے قابل ہے۔ اسکی جس قدرمذمت کی جائے کم ہے۔ یہ فعل نہ تو سنت ہے نہ واجب اور اسلامی معاشرے میں اسکی نہ کوئی اصلیت نہ حقیقت ہے بلکہ یہ معاشرے کیلئے ایک ناسور ہے۔ اگر جہیز کی لعنت کا خاتمہ ہو جائے اور شادیاں سستی ہوجائیں تو کئی نوجوان بچیوں کے چہرے ان گنت خدشات سے پاک ہوجائیں گے اور غریب والدین ان داخلی زنجیروں اور فرسودہ رسموں کے طوق سے آزاد ہو کر اپنے فرائض کو ادا کرسکیں گے۔موجودہ دور میں جہاں تعلیم عام ہوتی جا رہی ہے لوگوں میں شعور آتا جا رہا ہے۔ پر پھر بھی جہیز کی لعنت بڑھتی جا رہی ہے۔ باوجود اس کے کہ سب سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اچھا عمل نہیں ہے۔ معاشرے کو جہیز اور اس جیسی بڑی لعنتوں سے پاک کرنا ہماری ذمہ داری ہے تاکہ قبیح رسم کی وجہ سے کوئی بیٹی بن بیاہی نہ رہ جائے اور کوئی غریب باپ اس بات کی حسرت لیے اس دنیا فانی سے رخصت نہ ہو جائے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کا فرض پورا نہ کرسکا۔

ای پیپر دی نیشن