پاک فوج‘ پاک وطن ایک جان دو قالب۔۔۔!

سیاسی جماعتیں اس وقت سیاست سیاست کھیل رہی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ فوج کو تنہا کر دیا جائے ۔ ایم کیو ایم کا تمام گند فوج پر ڈال دیا جائے۔ ایم کیو ایم کے خلاف ایکشن کو غیر سیاسی قرار دے کر فوج کو مورد الزام ٹھہرایا جائے ۔ الطاف حسین ملک کے خلاف جو بولتا ہے اسے ”بکواس“ کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ نام نہاد جمہوری جماعتیں اب بھی ایم کیو ایم کی ڈھکی چھپی حمایت کر رہی ہیں ۔ میاں نواز شریف کی سیاسی بصیرت کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ترکی کا صدر طیب اردگان برادران کو بہت پسند کرتا ہے ۔ طیب اردگان نے ترکی کی فوج کو کمزور کر دیا ۔ فوجی اعلیٰ افسران کی ترقیاں روک دیں ، چن چن کر سزائیں دیں ، فوج کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے تا کہ فوج طیب اردگان کے سامنے سر اٹھانے کی جرات نہ کر سکے اور وہ مطلق العنان حکمران بن سکے ۔ ترک فوج نے اردگان کی زیادتیوں کے خلاف بالآخر بغاوت کر دی ۔ صدر اردگان نے داخلی حقائق کو چھپاتے ہوئے بغاوت کا رخ مذہبی رہنماءفتح اللہ گولن کی طرف کر دیا جبکہ امریکہ کو فتح اللہ گولن کو امریکہ بدر کرنے سے متعلق جو درخواست پیش کی گئی اس میں فتح اللہ گولن پر بغاوت پر اکسانے کا الزام نہیں بلکہ گولن تنظیم پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ امریکنوں کا کہنا ہے کہ ٹھوس شواہد ثابت ہوئے بغیر فتح اللہ گولن کو دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ صدر طیب اردگان نے اپنی فوج کی کمر میں چھرا گھونپا تو داعش کو ترکی میں حملے کرنے کا موقع مل گیا ۔پاکستان میں داعش کی موجودگی کا کسی کو انکار نہیں ۔ پاکستان کے سیاستدان بھی فوج کے معاملہ میں طیب اردگان بننے کے آرزومند ہیں۔لیکن پاکستان ترکی نہیں۔ پاکستان کا دشمن بھارت اگر کسی سے ڈرتا ہے تو وہ پاک فوج اور ایٹم بم ہے۔ پاک فوج کمزور ہو گئی تو ایٹم بم بھی ہاتھ سے جائے گا اور ملک بھی ۔ پاکستان کے عسکری ادارے مضبوط ہیں لیکن امریکہ انہیں دہشت گردی کی جنگ میں پھنسا کر کمزور کرنے کی کوشش میں ہے۔ سیاست میں قدم رکھنے سے پاک فوج کمزور ہوئی‘ بدنام ہوئی‘ کرپشن نے زور پکڑا۔ مشرف دور میں ایم کیو ایم جیسی دہشت گرد تنظیمیں مزید مضبوط ہو گئیں۔ کیانی دور میں بھی فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف رہی۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ سیاسی حکومتوں کی کرپشن نے بھی فوج کو سیاست میں مداخلت کا موقع فراہم کیا۔ ایم کیو ایم کی موجودہ صورتحال میں عسکری ادارے غداری کے خلاف سنجیدہ ایکشن لے رہے ہیں لیکن حکومت اور فوج ایک پیج پر دکھائی نہیں دیتے بلکہ حکومت خاموش اور غائب ہے۔ حکومت میڈیا کی پانامہ لیکس سے توجہ ہٹنے پر خوش ہے۔ حکومت کو الطاف حسین کو کیفر کردار تک پہنچانے میں دلچسپی نہیں اور نہ ہی ایم کیو ایم کے خلاف کوئی واضح اقدام لینا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے رویوں سے الطاف حسین کے غدارانہ عزائم کے خلاف فوج کی کارروائی کو یکطرفہ تماشہ پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ غدار کی بکواس پر چند مذمتی الفاظ کہہ دینے سے قوم اور فوج کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ پاک فوج ترک فوج نہیں جسے کمزور کر دیا جائے ۔ پاکستان کو ہڑپ کرنے کے لئے کئی دشمن منہ کھولے بیٹھے ہیں۔ یہ پاک فوج ہے جس کی وجہ سے پاکستان قائم و دائم ہے۔ جمہوری پارٹیوں کا کردار شفاف ہوتا تو فوج کو کبھی شب خون مارنے کی ہمت نہ ہوتی۔ آصف زرداری نے بھی مطلق العنان بننے کی کوشش کی تھی فوج نے انہیں نکیل ڈالے رکھی۔ میاں نواز شریف دو بار فوج سے پنگا لینے کا بلنڈر کر چکے ہیں۔ تیسری بار ایسا کیا تو جمہوریت کی بساط پھر لپیٹ دی جائے گی۔ پاکستان کو جو سیٹ اپ سوٹ کرتا ہے اس میں جمہوریت اور فوج کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ترک صدر طیب اردگان جیسا رویہ پاکستان میں نہیں چل سکتا۔ سیاستدان مت بھولیں قوم اپنی فوج کے ساتھ ہے۔ فوج کمزور ہو گئی تو یہ ملک جس پر سیاستدان عیش کرتے ہیں دشمن کا تر نوالہ بن جائے گا۔ الطاف حسین آستین کا سانپ نکلا اور 2004 میں بھارت جاکر قیام پاکستان کے خلاف بکواس کی۔ مشرف نے الطاف حسین سے فطری وابستگی کی وجہ سے غداری کا نوٹس نہ لیا۔الطاف حسین تیس سے زائد مرتبہ پاکستان مخالف بیانات دے چکا ہے ۔لیکن ماضی کے جرنیل آستین کے سانپ کو دودھ پلاتے رہے ۔ایم کیو ایم کے خلاف کراچی میں کریک ڈاﺅن جاری ہے ،مجال ہے مشرف اپنے یار الطاف کے خلاف ایک لفظ بول دیں۔ الطاف حسین نے خود کو غدار ثابت کرنے کے کئی مواقع مہیا کیئے مگر کسی جمہوری حکومت نے اس کا منہ بند نہیں کیا ۔کراچی میں اپریشن شروع ہوا تو الطاف حسین کی فوج سے عداوت کھل کر سامنے آگئی ۔ دشمن کا ایجنٹ وطن کے ریاستی اداروں کو گالی گلوچ کرے ، تباہ و برباد کر نے کی دھمکیاں دے ، اور جنرل راحیل شریف کی فوج خاموش رہے ؟ یہ مشرف، پرویز کیانی یا ضیا الحق کی فوج نہیں ، اس فوج کا جرنیل راحیل شریف ہے۔ وہ ایم کیو ایم کو سیاسی نہیں ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے اور اس پر پابندی عائد کرکے ہی ریٹائر ہو گا۔ سیاستدان گول مول سیاست کھیل رہے ہیں ”غدار“ کی حمایت بھی نہیں کر سکتے اور کھل کر دشمنی بھی مول لینا نہیں چاہتے۔

ای پیپر دی نیشن