روزمرہّ کے معمولات ومشکلات میں گرفتار عوام کی قومی معاملات کے بارے میں اجتماعی یادداشت انتہائی کمزور ہوا کرتی ہے۔ کسی زمانے کے چیکوسلاوکیہ کی کمیونسٹ آمریت سے بھاگ کر فرانس میں پناہ لینے والے میلان کندیرا(Milan Kundera)نے اپنے نالوں میں اجتماعی یادداشت کی اس کمزوری کو بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔ اس کا ایک ناول "The Book of Laughter and Forgetting"بھی ہے۔ اس عنوان کا ترجمہ”کتاب قہقہہ اور بھول جانا“ بھی ہوسکتا ہے۔
اس ناول کی کہانی اور دیگر جزئیات میں گم ہونے کی بجائے میں کندیرا کا صرف ایک قول لکھ کر اپنے اصل موضوع کی طرف آنا چاہتا ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ ”ریاستی قوت کےخلاف جدوجہد درحقیقت اجتماعی یادداشت کو برقرار رکھنے کی تڑپ ہوا کرتی ہے“۔
کسی بھی ملک کی اشرافیہ کی طرح پاکستان کے دائمی حکمران بھی یہ چاہتے ہیں کہ ہم ماضی کو بھول کر صرف حال پر نگاہ رکھیں۔ ان کی خواہش ہے کہ قومی بیانیہ یہ فرض کرلے کہ لندن میں کئی برسوں سے مقیم ایک سیاسی جماعت کا بانی اور قائد 22اگست 2016ءکی شب کئے ایک خطاب کے ذریعے ”بے نقاب “ہوا ہے۔اس سے پہلے ہمارے حکمرانوں کو گویا خبر ہی نہ تھی کہ موصوف کی پاکستان کے بارے میں ”اصل سوچ“ کیا ہے۔ چونکہ اب سادہ لوح بنتے حکمرانوں کو خبر ہی نہ تھی،اس لئے جنرل ضیاءاور مشرف جیسے ”دیدور“ بھی اس شخص کے جھانسے میں آگئے۔ اس ملک کی Mainstreamپارٹیوں کو مجبور کرتے رہے کہ وہ اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر اس کی بنائی جماعت سے بناکر رکھیں۔ اس کے نازنخرے برداشت کرتے رہیں۔ کراچی پر اس کی مافیا نما کنٹرول کو وقتی طورپرنظرانداز کرتے رہیں۔
سیاسی اور عسکری اشرافیہ ،عوام کی اجتماعی یادداشت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا چاہے تو ریاستی معاملات کے تناظر میں شاید اسے سمجھ کر بردداشت بھی کیا جاسکتا ہے۔ لکھنے والوں اور خاص طورپر اپنی تصویرکے ساتھ اخباری کالم لکھ کر رزق کا بندوبست کرنے والوں کو مگر ذراہٹ کر سوچنا ہوتا ہے۔ مجھے بہت غصہ آتا ہے جب ایسے لکھاریوں اور ہمارے ”آزاد“ ٹی وی چینلز کی سکرینوں پر عقل کل بن کر بھاشن دینے والے بھی ہماری اجتماعی یادداشت کو حال پر ماتم کنائی کے ذریعے کند کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔مزید افسوس اس لئے بھی ہوتا ہے کہ ان دنوں”پکڑلو جانے نہ پائیں“کی دہائی مچانے والے یہ کالم نگار اور عقل کل بنے اینکر خواتین وحضرات کئی برسوں تک خود بھی ”بھائی“ کی چاپلوسی اور مدح سرائی میں مصروف رہے تھے۔
لندن میں کئی برسوں سے مقیم ایک سیاسی جماعت کا بانی انہیں”اپنے ہاتھوں سے“ حلیم بناکر کھلایا کرتا تھا۔اس کے ہاتھ سے بنی حلیم کی تعریف کرتے ہوئے یہ لکھاری اور عقل کل بنے اینکر خواتین وحضرات نچلے متوسط طبقے سے اُٹھے ”بھائی“ کو موروثی اور جاگیردارانہ سیاست کا واحد دشمن بناکر پیش کرتے۔ اس حقیقت کو تواتر کے ساتھ دہرایا جاتاکہ موصو ف نے امام خمینی کی طرح اپنے لئے کبھی کوئی سیاسی عہدہ حاصل نہیں کیا۔ غریب اور پسماندہ طبقات کے نمائندہ نوجوانوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھیجا۔ انہیں وزارتیں دلوائیں۔ کراچی کا طاقت ور میئر بنوایا۔ اپنے لئے مگر کچھ حاصل نہ کیا۔
لندن میں کئی برسوں سے مقیم ”بھائی“ کے ہاتھ سے بنائی حلیم کے ذائقے سے سرشار اپنے کئی ساتھیوں سے میری بے تکلفی بھی ہے۔ میں انہیں یاد دلاتا رہتا کہ جو حلیم انہوں نے کھائی تھی وہ کراچی کی فلاں دوکان سے بن کر لندن بھجوائی جاتی ہے۔ ”بھائی“ اسے صرف گرم کرتے ہیں۔ بناتے نہیں۔ رہی بات نچلے اور متوسط طبقے کو سیاسی طورپر طاقت ور بنانے کی تو ہٹلر کا عروج بھی ان ہی بنیادوں پر ہوا تھا۔
میری ان باتوں کو پھکڑپن ٹھہراکر نظرانداز کردیا جاتا۔ تاہم کچھ دوست بالآخر اعتراف کرلیتے کہ جن اداروں کے لئے وہ کام کرتے ہیں،ان کی شدید خواہش کہ ”بھائی“ ناراض نہ ہو۔ٹیلی وژن پر ”نیوزاینڈ کرنٹ افیئرز“ کے نام پر نوٹنکی کے دھندے میں ملوث کلاکاروں کا بنیادی مسئلہ ویسے بھی Ratingsہوا کرتی ہے۔ اس Ratingsکو ماپنے کے پیمانے کراچی تک محدود ہوا کرتے تھے۔ کیبل ٹی وی کے ذریعے نشریات کو لوگوں کے گھروں تک پہنچانے والے نظام کی اصل کلید نائن زیرو میں موجود ہوا کرتی تھی۔ اس نظام کی اصل کنجی مگر اب اور ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ مجھ ایسے ڈرپوک میں ان ہاتھوں کی نشاندہی کرنے کی جرا¿ت ہی نہیں۔ ”پکڑلو جانے نہ پائیں“کی دہائی مچانے والے ”جرا¿ت مند“ بھی شاید اس ضمن میں خاموش رہنے کو ترجیح دیں گے۔ انہیں یہ اعتراف کرنے سے مگر اب کون روک رہا ہے کہ کئی برسوں تک وہ بھی ”بھائی“ کی بنائی حلیم کے ذائقے سے مسحور ہوکر موروثی اور جاگیردارانہ سیاست کے خلاف موصوف کی جدوجہد کی مدح سرائی میں حصہ ڈالتے رہے ہیں۔
لسانی،مسلکی اور قوم پرستانہ جذبات پربنائی جماعتوں کو میں نے ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ ان جماعتوں کی عوامی مقبولیت مجھے ہرگز مسحور نہیں کرتی۔ شہر کراچی کی Dynamicsسے تھوڑی سی واقفیت بھی مگر آپ کو سمجھا دیتی ہے کہ دو کروڑ کی حد کو چھوتے اس شہر کے باسیوں پر کوئی ایک سیاسی جماعت اپنا کنٹرول ہرگز برقرار نہیں رکھ سکتی۔
پاکستان کی ریاست کئی لوگوں کی نظر میں کمزور اور دشمنوں کے لئے Failed Stateہوگی،میرے لئے ہرگز نہیں۔ ریاست کی ساخت اور اس کے اختیارات کو استعمال کرنے والے اداروں سے متعلق علم کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں بلکہ اپنی ریاست کوعلمی حوالوں سے ایک Over Developedریاست گردانتا ہوں۔
کراچی میں کئی برس گزار کر بہت لگن سے تحقیق کرنے والے ایک فرانسیسی -Laurent Gayer-نے اس شہر کی سیاست کے بارے میں ایک زبردست کتاب لکھی ہے۔ آج سے دو سال قبل چھپی اس کتاب کا نام ہی ”کراچی“ ہے۔ ذیلی عنوان اگرچہ چونکا دینے والا ہے جو "Ordered Disorder"کی بات کرتا ہے۔ نظر بظاہر متضادبات کرنے والی یہ اصطلاح جرمنی کے ایک انتہائی تخلیقی ڈرامہ نگار،بریخت(Bertolt Brecht)نے 1937ءمیں لکھے ایک ڈرامے میں استعمال کی تھی۔ یاد رہے کہ بریخت،ہٹلر کے عروج کا عینی شاہد تھا۔ اسے اپنے ملک میں فسطانیت کے فروغ سے خوف آتا رہا۔ اپنی تحریروں سے اس نے اس کو روکنا چاہا۔ ناکام رہا تو جرمنی سے بھاگ کر امریکہ چلا گیا۔ آزادی¿ اظہار کے چمپیئن بنے اس ملک سے بھی اسے دوسری جنگ عظیم کے بعد فرار ہوکر برلن لوٹ آنا پڑا تھا۔
پاکستان کی ریاست کے پاس 1980ءکی دہائی میں بھی چیزوں پر قابو پانے والی قوت واختیار پوری طرح موجود تھا۔اسی دہائی کے وسط میں ایم کیو ایم ہمارے سیاسی منظر نامے پر ابھرنا شروع ہوئی تھی۔ مختلف النوع ترجیحات کی وجہ سے لیکن ہماری ریاست نے اس جماعت کی مزاحمت نہیں بلکہ کئی حوالوں سے معاونت کی۔ انتشار، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ یعنی Disorderجو مجھے اور آپ کو نظرآتا رہا، اس تناظر میں گویا "Ordered"تھا۔ریاستی ترجیحات مگر اب بدل چکی ہیں۔ لندن میں کئی برسوں سے مقیم رہ نما اور اسکی بنائی اور چلائی تنظیم ان ترجیحات میں اب Fitنہیں ہوتی۔ وہ عوامل جو اس جماعت کے ابھرنے اور اس کے عروج کا باعث بنے، اپنی جگہ مگر اب بھی موجود ہیں۔ ”پکڑلو جانے نہ پائیں“کی دہائی ان کا حل فراہم نہیں کرتی۔
یہ بنیادی بات جب میں بیان کرتا ہوں تو کئی برسوں تک”بھائی کے ہاتھ کی بنی حلیم“ کھانے والے دوست ناراض ہوجاتے ہیں۔ عوام کو مشرف سے ایم کیو ایم کے رشتے یاد دلاﺅں تو وہ مجھے ”غداروں کا حمایتی“ تصور کرلیتے ہیں۔یادِ ماضی،واقعتا ان دنوں میرا ذاتی عذاب بن چکا ہے۔ کاش فلموں میں دکھائی چند کہانیوں کی طرح میرے سرپر بھی کوئی چوٹ لگ جائے اور میں سب کچھ بھول کرشانت ہوجاﺅں۔
”کراچی“.... کاش
Aug 29, 2016