اسلام آباد (سہیل عبدالناصر)کمزور سفارتکاری ، بھارتی لابی کی کوششوں اور اوباما انتظامیہ کے آنکھیں پھیرنے کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات ترقی معکوس کی نئی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ ایک مستند حکومتی ذریعہ کے مطابق بھارت کیلئے امریکہ کی کھلی حمایت اور پاکستان کے ساتھ معاندانہ رویہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ امریکہ نے ڈیڑھ ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی ظلم پر ایک لفظ تک نہیں کہا۔ امریکہ کی اس چشم پوشی کی واحد وجہ پاکستان کو چڑانا مقصود ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی میں پاکستان امریکہ تعلقات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے نتیجہ میں واشنگٹن میں موجودہ سفیر جلیل عباس جیلانی کی رخصتی یقینی ہے۔ بطور سفیر ان کے کنٹریکٹ کی مدت فروری 2018ء کے وسط میں مکمل ہو رہی ہے۔ جلیل عباس جیلانی نے اگست کا تقریباً پورا مہینہ پاکستان میں گزارا اور ارباب اقتدار کو قائل کرنے کی پوری کوشش کرتے رہے انہیں کنٹریکٹ کی مدت پوری کرنے دی جائے۔ یہ کام ممکن ہو بھی سکتا تھا لیکن واشنگٹن میں پاکستان کو اہم ترین سفارتی اور فوجی چیلنج درپیش ہیں۔ اس ذریعہ کے مطابق امریکہ کا معاندانہ رویہ بجا لیکن مئوثر سفارتکاری کرنا تو پاکستان کی اپنی ذمہ داری ہے اس لئے سفیر کی تبدیلی ناگزیر ہے کیونکہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی بندش، ایف 16 کے سودے کی منسوخی اور اب جان کیری کا دورہ پاکستان نہ کرنے سمیت بطور سفیر جلیل عباس جیلانی کی ناکامیوں کی فہرست طویل ہے۔ واشنگٹن میں سفیر بننے کے امیدواروں کی فہرست بھی طویل ہے لیکن سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نمایاں ہیں تاہم اعزاز چوہدری کی راہ میں دو رکاوٹیں ہیں۔ مدت ملازمت بھی مکمل ہو رہی ہے اور یہ سوال پھر پیدا ہو رہا ہے کیا ریٹائرمنٹ کے قریب یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ کو واشنگٹن جیسے اہم دارلحکومت میں سفیر مقرر کیا جائے؟ پاکستان کی فارن سروس کے افسران اقوام متحدہ جیسے کثیر القومی ادارے میں ملیحہ لودہی کو ناکام سفارتکار تصور کرتے ہیں۔