صوابی (آئی این پی) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی قائد اسفند یار ولی خان نے د وٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ اے این پی فاٹا کو صوبہ خیبر پی کے میں ضم کرنے کی بھر پور حمایت کر تی ہے۔ آئین میں ترمیم کرکے صوبائی اسمبلی میں قبائلیوں کو انکا حق دیکر انہیں نمائندہ تسلیم کیا جائے۔ باچا خان اور ولی خان کے فلسفے اور جھنڈے کو کوئی قوت ختم نہیں کر سکتی بڑی بڑی قوتیں آئیں مگر باچا خان کے فلسفہ عدم تشدد آج بھی اسی طرح زندہ ہے جس طرح پہلے تھا ان کا کہنا تھا کہ میں افغانی تھا، افغانی ہوں اور مرتے دم تک افغان ہی رہونگا، اسلئے افغان مہاجرین کے ساتھ پاکستان میں ناروا سلوک کبھی بر داشت نہیں کرینگے۔ افغانستان میرے باپ دادا کا ملک ہے۔صوابی یار حسین میں ایم پی اے حاجی محمد شعیب خان کے قتل کیخلاف احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اسفند یار ولی خان نے کہا کہ وزیرداخلہ کہتے ہیں کہ میں نے اتنے شناختی کارڈز بلا ک کئے لیکن میں اس کو کہتا ہوں کہ ان میں زیادہ تر شناختی کارڈز ایسے ہیں جن کے باپ دادا پاکستانی ہیں، وزیرداخلہ کو شناختی کارڈز کی بڑی فکر پڑی ہے، آرمی پبلک سکول پشاور کے بعد آل پارٹیز کانفرنس ہوئی تو اس میں نیشنل ایکشن پلان بنا تو زندگی میں پہلی اور آخری مرتبہ ہم نے فوجی عدالتوں کو تسلیم کیا، یہ فیصلہ ہمارے لئے بڑا کڑوا گھونٹ تھا۔ وزیرداخلہ بتادیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر کس حد تک عملدرآمد ہوا اور کس حد تک نہیں، ہمیں اور قوم کو اعتماد میں نہیں لینا چاہتے تو پارلیمنٹ میں آکر جواب دیں، تاثر دیا جارہا ہے کہ امن و امان کی حالت خراب ہیں تو اسلئے ملک میں مردم شماری نہیں ہوسکتی، حکومت پنجاب اور این ایف سی ایوارڈ کی ڈر کی وجہ سے دیگر صوبوں کو مردم شماری سے محروم رکھنا چاہتی ہے۔ حکومت اسمبلیوں میںقبائیلوں کو نمائندگی دے، فاٹا کو خیبر پی کے میں ضم کرے۔ مقتول محمد شعیب کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، یہ لڑائی اے این پی کی لڑائی نہیں بلکہ پختونخوا کی سلامتی کی جنگ ہے، پختونوں کے تعلیم یافتہ لوگوں کو سازش کے تحت راستے سے ہٹانے کی کوشش ہورہی ہے۔ خیبر پی کے حکومت کو صوبے کی نہیں تخت اسلام آباد کی فکر ہے۔ افغانستان میں امن لائے بغیر پاکستان میں امن ممکن نہیں، افغانستان جب بھی غیر مستحکم ہوا تو اس کا سارا اثر پورے برصغیر پر پڑے گا۔ 21 ستمبر کو پارٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں فیصلہ کیا جائیگا کہ اے این پی کے بے گناہ ورکروں اور رہنمائوں کی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے خلاف کونسا راستہ اختیار کیا جائے۔ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور دیگر سرکاری عمارتوں پر دہشت گردی جاری ہے جس میں لا تعداد پختون شہید ہو رہے ہیں یہ سب کچھ پختون قوم کی نسل کشی کے لئے کیا جارہا ہے۔ ہماری تمام خارجہ پالیسیاں ناکام ثابت ہوئی ہے، ہم سب کو پاکستانی کی حیثیت سے بیٹھ کر اپنے خارجہ پالیسی کو درست کرنا ہوگا تاکہ پاکستان میں امن قائم ہو کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ جلسے میں مرکزی نائب صدر حاجی غلام احمد بلور، سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہو تی، صوبائی سیکرٹری اطلاعات میاں افتخار حسین، صوبائی جنرل سیکرٹری سردار حسین بابک، ڈپٹی جنرل سیکرٹری ایمل ولی خان، سینیٹر ستارہ ایاز، سابق ایم این اے بشریٰ گوہر، سابق ایم این اے پرویز خان ایڈوکیٹ اور مرکزی قائدین بھی شامل تھے۔ احتجاجی جلسے میں جماعت اسلامی، جے یو آئی (ف)، مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور رہنمائوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔افغان ہوں اور افغان رہوں گا۔
نیشنل ایکشن پلان پر کہاں تک عملدرآمد؟ نثار ہمیں نہیں تو پارلیمنٹ کو ہی بتادیں: اسفندیار
Aug 29, 2016