”ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے“

کبھی کبھی سوال خود ہی سراپا جواب ہوتا ہے۔ اب بینظیر بھٹو کے سوئٹزرلینڈ اکا¶نٹس‘ ہیروں کا ہار اور سرے محل بارے سوالات کے جوابات غیر ضروری ہو گئے ہیں۔ سارے سوال خود ہی جواب بن گئے ہیں۔ اندرا گاندھی نے مشہور اخبار نویس اور یانا فلاشی کو ایک لمبا انٹرویو دیا۔ مجھے اس انٹرویو بابت کچھ نہیں لکھنا۔ انٹرویو ختم ہوا۔ اندرا نے فلاشی کو وقت رخصت دعا دی۔ یہ ہماری مشرقی روایت ہے کہ بڑے چھوٹوں کو دعا دیتے ہیں۔ کیا زندگی آموز دعا ہے۔ ”میں تمہیں زندگی میں آسانیوں کی دعا نہیں دیتی۔ میں تمہیں دعا دیتی ہوں کہ تمہیں جیسی بھی مشکلات کا سامنا ہو‘ تم ان پر قابو پا سکو“۔ دنیا میں جہاں جہاں کرکٹ کھیلی جاتی ہے‘ وہاں وہاں عمران خان کے پرستار موجود تھے۔ لیکن اس کا تعلق کسی پاکستانی سیاسی گھرانے سے نہیں تھا کہ اسمبلی پہنچنے کیلئے اس کے لئے آبائی حلقہ موجود ہوتا۔ یہاں تک پہنچنے میں اسے ایک لمبا سفر طے کرنا پڑا۔ تحریک انصاف کو ایک سست رو پارٹی سے‘ ایک متحرک سیاسی جماعت بننے میں بیس برس لگ گئے۔ ملتان سے ہمارے دوست خالد مسعود پنجابی اردو ”رلی ملی“ زبان میں مزاحیہ شاعری ضرور کرتے ہیں۔ لیکن وہ کالم بہت سنجیدہ لکھتے ہیں۔ فراواں جرا¿ت اور درد دل سے لکھے ان کے کالم خاصے کی چیز ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے اپنے کالم میں انکشاف کیا کہ ہم سرے سے انقلاب کے جین سے ہی محروم ہیں۔ جین اس خصوصیت اور صلاحیت کو کہتے ہیں جو انسان کو اپنے آبا¶اجداد سے ملتی ہیں۔ وہ اپنے م¶قف کے حق میں بڑی تگڑی دلیل ڈھونڈ لائے ہیں وہ بتا رہے ہیں کہ ہندوستانی چھ سات ہزار سالہ تاریخ کہیں بھی کسی انقلاب کا ذکر نہیں ملتا۔ ان حالات میں عمران خان سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر لینا کچھ عقلمندی نہیں۔ وہ جتنی مقدار میں تبدیلی اور جیسا تیسا انقلاب دے پائیں گے اسے غنیمت سمجھنا چاہئے۔ پھر انہیں ساتھی بھی کیسے کیسے میسر آئے ہیں۔ جسٹس وجیہہ الدین کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف پر پیراشوٹ مافیا نے قبضہ کر لیا ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ اس ایماندار مگر خبط عظمت میں مبتلا بڑے میاں نے تحریک انصاف کو فائدہ زیادہ پہنچایا ہے یا نقصان۔ یہی وجہ ہے کہ تنگ آ کر عمران خان کو کہنا پڑا کہ جنہیں پارٹی پالیسی سے اختلاف ہے وہ جماعت چھوڑ کر اپنی الگ جماعت بنا لیں۔ پھر انہیں امیدوار بھی کیسے کیسے ملے۔ ضلع گوجرانوالہ میں تھانہ واہنڈو کو باڑہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ کسی زمانہ میں پشاور سے آگے باڑہ خیبر پختونخواہ علاقہ غیر کہلاتا تھا۔ پنجاب بھر سے جرائم پیشہ لوگ وہیں جا کر پناہ لیتے۔ واہنڈو کے حلقہ سے تحریک انصاف نے ”ریکارڈ“ ووٹ حاصل کئے۔ ان کے امیدوار کے حاصل کردہ 17 ووٹوں میں ان کا اپنا ووٹ شامل نہیں تھا۔ انہیں الیکشن کے روز گھر سے باہر کسی جگہ دیکھا ہی نہیں گیا۔ اب ایسے شریف امیدواروں سے جتنی کامیابی ممکن تھی‘ اتنی تحریک انصاف نے ضرور حاصل کی۔ باقی شہروں میں بھی حالات بھلا کتنے اور مختلف ہونگے۔
عمران خان کے سوالات چار حلقے کھولنے سے شروع ہوئے۔ حالات نے ثابت کیا کہ خاں صاحب کے سوالات درست تھے۔ اب ان کے پانامہ لیکس والے سوالات مسلسل ٹالے جا رہے ہیں۔ امریکی صدر اوباما کی بیٹی کا چھٹیوں میں ایک ریسٹورنٹ میں ویٹر کے طور پر کام کرنے سے عمران خان کے سوالات میں کچھ اور شدت پیدا ہو گئی ہے۔ کرپشن الزامات کا سامنا اکثر سیاستدانوں کو کرنا پڑتا ہے۔ مہذب ملکوں میں اس کا جواب دیا جاتا ہے۔ ویت نام کے صدر تھیو کو ایسے ہی سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیا ہمارے حکمران ایسا مفصل جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں؟ صدر تھیو سے سوئٹزرلینڈ بنک اکا¶نٹس اور ان کے غیر ممالک میں گھروں کی ملکیت بارے پوچھا گیا تھا۔ انہوں نے جواب دیا ”میں آپ کے سامنے اپنی بیٹی اور بیٹے کے سر کی قسم کھاتا ہوں کہ بیرون ممالک میں میری کوئی جائیداد نہیں۔ لندن‘ پیرس‘ آسٹریلیا یا سوئٹزرلینڈ میں میرا کوئی گھر نہیں۔ یہ سوئٹزرلینڈ میں میرے گھر والی کہانی‘ میں نے بھی امریکیوں سے سنی تھی۔ میں نے انہیں کہا کہ تم لوگوں کے پاس تکنیکی اور فنی آلات موجود ہیں‘ اس گھر کا کھوج نکالو‘ پھر اس گھر کی تصویر لو اور میرے پاس چلے آ¶۔ میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ ویت نام کے اندر ہے۔ جنرل ہیڈکوارٹر میں میرا ایک فلیٹ ہے۔ یہ مجھے جنرل کی حیثیت سے ملا ہے۔ میں ہفتہ کے آخری دنوں وہاں چلا جاتا ہوں۔ اس کے علاوہ میرا دریا کنارے ایک لکڑی کا مکان ہے۔ یہ گھر مجھے ترکھانوں کی تنظیم نے تحفتاً دیا تھا۔ اس کے علاوہ میرے پاس وہ گھر ہے جہاں میں پیدا ہوا تھا۔ یہ گھر گا¶ں کا سستا ترین گھر ہے۔ لوگ اس کو دیکھنے جاتے ہیں اور ہنسنے لگتے ہیں۔ آخر میں میرے پاس تھوڑی سی زرعی اراضی بھی ہے۔ جہاں میں اپنے زراعت کے ہلکے پھلکے شوق کو پورا کر لیتا ہوں۔ وہاں میں چاول اگاتا ہوں۔ تربوز اگاتا ہوں۔ وہیں میں مرغےاں اور سور بھی پالتا ہوں۔ وہاں ایک ننھا منا سا سالاب بھی ہے۔ میں وہاں اپنی ضرورت کیلئے مچھلیاں بھی رکھتا ہوں۔ ہاں! جب سے میں صدر بنا ہوں۔ میں نے ایک کار نہیں خریدی۔ میں بس سابق صدر DIGM کی کار استعمال کرتا ہوں‘ جو پرانے ماڈل کی مرسڈیز ہے۔ جس کا انجن ہمیشہ خراب رہتا ہے“۔ اب وہ انٹرویو لینے والی خاتون سے پوچھنے لگے ”آپ تصور کر سکتی ہیں کہ ویت نام کا صدر کسی اہم غیر ملکی دورے سے واپس آتا ہے اور جہاز سے اتر کر اپنی مرسڈیز کار میں سوار ہوتا ہے۔ جس کا انجن چلتے چلتے اچانک رک جاتا ہے؟“ صدر تھیو کو اس اخبار نویس خاتون نے خدا جانے کیا جواب دیا۔ ایک پاکستانی کے طور پر میرا جواب یہ ہے ”ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے“۔
پس تحریر: ہم خواجہ محمد صالح کو ان دنوں سے جانتے ہیں جب ان کا نام جہانگیر ہوا کرتا تھا۔ ’کچی پکی‘ کلاسوں میں اکٹھے پڑھتے تھے۔ پھر یہ ہم مڈل کلاسیوں کو چھوڑ کر ایچی سن کالج لاہور چلے گئے۔ یہاں سے فارغ ہو کر برن ہال ایبٹ آباد اور وہاں سے سیدھے سول سروس اکیڈمی پہنچ گئے۔ کچھ برس افسری کی۔ پھر مستعفی ہوئے اور دل و جان انڈسٹری میں کھپانے لگے۔ دیوان روڈ ایمن آباد میں وسیع رقبہ خرید کیا۔ ایک ٹیکسٹائل مل لگائی۔ کئی اور ملیں لگانے کا دل میں ارادہ تھا۔ اور ملیں‘ کارخانے لگانے کی بجائے اب انہوں نے شہر گوجرانوالہ کا سب سے بڑا شادی گھر بنا لیا ہے۔ ’مبارک کہہ نہیں سکتا‘ میرا دل کانپ جاتا ہے‘۔ کاش ملکی حالات انڈسٹری کے موافق ہوتے‘ ہم بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا نہ ہوتے۔ پھر خواجہ صاحب ضرور اس بڑے شادی ہال کی بجائے کوئی اور بڑی سی فیکٹری لگاتے۔ بیشک فیکٹریوں کی چمنیوں کا دھواں ملک کیلئے خوشحالی اور امن کا پیغام لے کر آتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن