”قوم ساتھ دے“

وزیراعظم نے 30 جدید ہسپتال بنانے کی منظوری دیدی۔ منصوبے ”18ماہ“ میں مکمل کرنے کی ہدایت دے کر مخالف کیمپ کی ہوا اکھاڑ دی۔ جو ”وزیراعظم“ کے لندن علاج پر معترض تھے۔ایک بھی جدید ہسپتال نہ بنانے کا طعنہ دینے والوں پر 3,2 نہیں اکھٹے ”30“ وہ بھی جدید ترین کی خبرے اوس ڈال دی۔ بڑھتی ہوئی آباد اور عام آدمی کی سکڑتی ہوئی قوت خرید کے تناظر میں نئے ”100 ہسپتال“ بھی کم ہیں۔ ہمارا ”غریب آدمی“ سے براہ راست تعلق ہے۔ ایک علاج معالجہ، دوسرا معاشی مسائل، اب تو کافی عرصہ سے سفید پوش طبقہ کی کثیر آمد ہمارے ہسپتال میں دیکھی جارہی ہے۔ روٹی کھانے کے پیسے نہ رکھنے والا دوائی کہاں سے خریدے، روز افزوں پھیلتی بیماری اور غربت دونوں کے عینی شاہد ہیں غریب کی لاچاری، کسمپرسی کے گواہ.... سرکاری ہسپتال کا جو حال ہے وہ ہم سے تو کیا، کسی سے بھی پوشیدہ نہیں.... ”ینگ ڈاکٹرز“ کی من مانی نے رہی سہی کسر بھی نکال دی، ایک عرصہ سے دکھی انسانیت کی خدمت کے دعویدار مسلسل ہڑتال پر ہیں.... لامحالہ ہمارے اوپر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ ایک چھوٹی عمارت کتنے لوگوں کو اپنے اندر سمو سکتی ہے۔ رش سے گھٹن اتنی بڑھ جاتی ہے کہ چند قدم چلنا بھی محال لگتا ہے.... سرکاری ہسپتالوں کو اربو روپے دینے کے باوجود ”محکمہ صحت“ کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ چاہئے کہ ہسپتالوں کے نام بدل کر ”صحت عامہ کے آثار قدیمہ“ رکھ دیں۔ کچھ دن پہلے ” ڈی سی او صاحب“ نے ”میاں منشی ہسپتال“ کو ”5 کروڑ“ عنایت فرمائے۔ یہ وہ ادارہ ہے (ایک رپورٹ کے مطابق) جس کی ایمرجنسی سرجن کے بغیر کام کر رہی ہے۔ ایکسرے مشین ”90 سال“ پرانی مگر سلیوٹ کہ سر توڑ سازشوں کے باوجود زندہ ہے۔ آئی سی یو وینٹی لیٹر کے بغیر ہے۔ درست یا غلط؟ ایم ایس صاحب ہی بتاسکتے ہیں۔ دیگر ہسپتالوں کا تو ”اللہ تعالیٰ“ ہی محافظ ہے۔ سنا ہے ایک چینی کمپنی کو سسٹم کمپیوٹرائزڈ کرنے کا کام سونپا گیا ہے.... تازہ ترین ترک وزارت کے تعاون سے پنجاب ہیلتھ کیئر سسٹم بہتر بنانے کے ایم او یو پر دستخط.... اتنی ہماری آبادی نہیں جتنے ”ایم او یو“ سائن ہوچکے ہیں.... قابل احترام “سپریم کورٹ“ کے ریمارکس سامنے پڑے ہیں کہ پنجاب کے ہسپتالوں میں ”گدھ“ زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ ادویہ ساز مافیا کے سامنے ”نیب“ بھی بے بس ہے۔ نئے ہسپتال بنانے کا فیصلہ وقت کا تقاضا مگر پہلے سے موجود اداروں کی تنظیم نو نظام کی درستگی کی نسبت ”خود اختراعی“ اپنی تصویروں، اپنے ناموں کی تختیوں والے منصوبوں کی تعداد بڑھانے کی خواہش زیادہ غالب نظر آتی ہے۔ وزیراعظم صاحب کی تقریر سامنے رکھی ہے۔ قوم ساتھ دے تو اگلے 2 سال ترقی کے ہونگے۔ ووٹ دے کر ”وزیراعظم ہاﺅس“ پہنچا دیا۔ اب مزید ساتھ کیا دے؟ طویل عرصہ سے ساتھ دینے والوں کا جو حال ہے وہ پڑھیے.... دو دن پہلے بارش کے بعد لاہور کی شاہراہیں سمندر کا منظر پیش کر رہی تھیں گاڑیاں گردن تک پانی میں ڈونبی ہوئیں۔ بیحد پریشان کن، ذہنی دباﺅ بڑھانے والا دن تھا مگر حیران کہ پانی میں ڈوبے رکشہ ڈرائیور کے چہرے پر پریشانی نہ خراب موٹر سائیکل کو گھسیٹتے ہوئے ”سوار“ غصہ کرتا نظر آیا۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنستے اور خراب ماحول کو بھی انجوائے کرتے لوگ۔ جس ”بی بی“ جمہوریت کا ہم نام لیتے نہیں تھکتے۔ اس کے آباﺅ اجداد میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں توایک انسان کے مرنے پر پوری حکومت گھر چلی جاتی ہے۔ ادھر برسات میں کرنٹ لگنے، لٹکتی تاروں کے گرنے سے ہونی والی اموات سیلاب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ ساتھ نہیں تو کیا ہے؟ بلکہ دو چند ہے ساتھ بھی اوربرداشت بھی.... لوگ گھٹنوں پانی میں پھنسے رہتے ہیں اور 15,14 گھنٹے بجلی کے بغیر گزارتے ہیں۔ یہ بڑے شہروں کی بات ہے۔ اردگرد کے علاقے تو زیادہ تر 24 گھٹنے محروم رہتے ہیں پھر بھی ووٹ برسہا برس سے آپ کو ہی دے رہے ہیں ہر مرتبہ اس اعلان پر یقین کرکے کہ ”لوڈشیڈنگ“ ختم کردیں گے۔ خبر سامنے ہے۔ انتخابات سے قبل لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی ذمہ داری افسروں کو سونپ دی۔ یہ خبر پچھلے الیکشن سے قبل بھی اہتمام سے برابر چھپوائی گئی تھی۔ شک نہیں، دعا ہے کہ واقعی معجزہ، ہو جائے اس مرتبہ، قبولیت میں شبہ نہیں تھا مگر ”چیئرمین واپڈا“ کے استعفیٰ کی خبرسامنے رکھی ہے وجہ کرپشن نہیں خرابی صحت نہیں۔ ”کالا باغ ڈیم“ کی حمایت میں کالمز لکھنا استعفیٰ کا باعث بنا۔ ابھی کچھ دن پہلے ”وزیراعظم صاحب“ نے چیئرمین کو ڈیمز پر کام تیز کرنے والے کو تو باہر بھاگنا پڑ سکتا ہے دشمن قوتیں اتنی طاقتور ہیں۔ چھوٹے ڈیمز انرجی بحران کا حل نہیں.... وسیع گنجائش والی آبی ذخیروں کی تعمیر سے اب مضر ممکن نہیں سی پیک کامیاب بنانا ہے توایک نہیں ”کالاباغ“ جیسے متعدد ڈیمز تعمیرکرنا پڑیں گے۔ قوم ساتھ ہے تو 14,13 گھٹنے پانی، گیس، بجلی کے بغیر جی رہے ہیں جبکہ ”46 ارب ڈالرز“ والے اندھیروں میں کام کرنے والے نہیں۔ قوم کے نصیب ایسے ہیں کہ اندھیرے لپک، لپک کر آتے ہیں.... آبی ذخائر کا معاملہ بھی ہسپتال والا ہے۔ حالت ٹھیک کرنےکی بجائے نئے ہسپتال قائم کرنے کا فیصلہ۔
ارسا اور واپڈا کا اختلاف۔ ”27 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ضائع“.... تربیلا ڈیم نہ بھرنے سے ایک ارب ڈالر نقصان ہوگا۔ گرمی، سردی، قدرت کے مقررہ نظام کے تحت آتی، رخصت ہوتی ہیں۔ دونوں موسم بڑھتے سالوں میں شدید ہوتے جا رہے ہیں۔ مریض، بچے، بوڑھے نڈھال، اوپر سے طویل، غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور پانی کی کمی، عوام کی چیخیں نکلوا دیتی ہے۔ کبھی کبھار اذیت بڑھ جائے تو چند ٹائر جلا کر خود ہی دھواں پھانک کر گھر چلے آتے ہیں مگر وقت آنے پر ووٹ آپ کو ہی دیتے ہیں۔ اب قوم مزید کیا ساتھ دے؟ بجلی، گیس آئے نہ آئے، پول لگے یا زمین میں تار بچھائی جائے۔ پیسے عوام کی طرف ہی نکلتے ہیں.... ”مٹیاری، لاہور“
ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر کے لئے ”200 ارب روپے“ عوام سے وصول کرنے کا فیصلہ.... کچھ بھی کرلیں۔ چھری نہ خربوزے پر ہی گرنا ہے۔ خبر کو شائع ہوئے کافی دن گزر گئے۔ ”خربوزے“ نے اُف تک نہیں کی.... یہ ساتھ نہیں تو کیا ہے؟ کچھ نہ لیکر ہمیشہ جتوانے والے مزید کسی قسم کا ساتھ دیں؟ ”کراچی سے پشاور“ تک معیشت کرپشن کے سیلاب میں بہہ گئی اور سڑکیں پانی میں، صحت، معاش سے شاہراہ تک کارکردگی پانی پانی، کوئی ادارہ چاہئے نجی تھا یا ”سرکاری“ محفوظ نہ رہ پایا....
”چینی، چاول، مرغی“ وغیرہ وغیرہ کی قیمتوں میں کمی کی خبر سامنے پڑی ہے۔ نجانے یہ کونسی خوش قسمت دنیا ہے جو ہماری پہنچ سے باہر ہے۔ جس کے جغرافیہ سے ہم لاعلم ہیں جبکہ واویلا مچا ہے کہ ”رمضان کریم“ کے بعد یوٹیلٹی سٹورز سے دال سے لیکر چینی تک غائب ہیں۔ ہمارا پیکج صرف ”ایک ماہ“ کے لئے.... وہ بھی گھنٹوں لائن میں لگنے کے بعد۔ جبکہ عوام آپ کو ”5 سال“ کا پیکج دے کر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتی۔ اس طرح کا ”فراخدلانہ ساتھ“ جمہوریت کے بانی نے بھی نہ سنا ہوگا....

ای پیپر دی نیشن