کراچی میںگزشتہ دنوں جو کچھ ہوا ۔ایسا پہلی بار نہیںہوا بلکہ جب بھی لندن میں بیٹھے ہوئے نام نہاد قائد بولتے ہیں تو کفن پھاڑ کر ہی بولتے ہیں ۔ پاکستان اور محافظان پاکستان کو مشق ستم بنانا کبھی نہیں بھولتے ۔ اس کے باوجود کہ رینجر کی رپورٹوں کے مطابق کراچی میں جرائم پیشہ ¾ٹارگٹ کلر ¾ اغوا برائے تعاون اور بھتہ خوروں کا 80 فیصد تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔ پھربھی اس جماعت کو بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دینا اور اب کراچی اور حیدر آبادکی میئر شپ بطور تحفہ دینا معنی خیز بات ہے ۔ فاروق ستار جن کی حیثیت صرف ایک کٹھ پتلی کی ہے وہ بڑی خوبصورتی اور مہارت سے الطاف حسین کے گناہوں پر پردہ ڈال کر پاکستانی قوم اور حکمرانوں کوبیوقوف بنانے میں کامیاب رہے ہیں ۔ ان کے بقول اب تمام فیصلے کراچی میں ہواکریں گے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ فرماتے ہیں کہ بانی کی حیثیت سے الطاف حسین کاکردار شامل حال رہے گا ۔ 11مئی 2007ءکو جس طرح خون کی ہولی کھیلی گئی اسے تاریخ کا بدترین اور خوفناک ترین سانحہ قرار دیاجاسکتا ہے لیکن جب سندھ ہائی کورٹ نے از خودنوٹس پر سماعت شروع کی تو ایم کیو ایم کے ایما پر لاکھوں افراد نے سندھ ہائی کورٹ کا محاصرہ کرلیا اور جج صاحبان نے سماعت کو جاری رکھنے سے معذوری ظاہر کردی ۔ پھر اس عمارت کو آگ لگاکر تمام دروازے بندکرنے کا واقعہ بھی رونما ہوا جس میں درجنوں وکلا کے دفاتر تھے وہ سب لوگ زندہ جل گئے ۔ پھر اس فیکٹری کو بھتہ نہ ملنے کی بنا پر آگ لگانے کا واقعہ آج بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں زیر بحث ہے جس میں اڑھائی سو افراد زندہ جلے تھے ۔ حکیم محمدسعید اور ہفت روزہ تکبیر کے چیف ایڈیٹر محمد صلاح الدین جیسے نیک سیرت افراد کو شہید کرنے والوں کاتعلق بھی ایم کیو ایم سے ہی بتایا جاتارہاا ۔ ایک جانب یہ سب قتل و غارت تو دوسری جانب ایم کیو ایم سیاسی جماعت کی آڑ میں ہمیشہ وفاق کو بلیک میلنگ کرتی رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت کی جانب سے پابندی لگنے سے چند ماہ پہلے الطاف حسین کا ایک بیان اخبار میں شائع ہوا ۔ اگر وہ چاہیں تو صدر اور وزیر اعظم پاکستان کو کراچی کی سرزمین پر قدم بھی نہ رکھنے دیں ۔ اللہ تعالی کو شاید یہ تکبرانہ گفتگو پسندنہیں آئی کہ کراچی والوں کے لیے رینجر ایک نعمت بن کر نازل ہوئی جس نے انتہائی الجھے ہوئے معاملات کو نہایت دانش مندی سے کچھ اس طرح سلجھانا شروع کیا کہ جرائم کے پس پردہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دونوں کا چہرہ واضح دکھائی دینے لگا ۔ بہرکیف الطاف حسین کی ہرزہ سرائی کے بعد جس طرح پاکستان مخالف نعرے بازی ہوئی اور پاک فوج کے خلاف دنیا بھر میں پروپیگنڈہ کیا گیااس تناظر میں ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ملک بھر میںدفاتر سیل کرنے کے بعد ایم کیو ایم پر پابند ی عائد کردی جاتی اور سندھ میں دوبارہ بلدیاتی الیکشن کا اعلان کردیا جاتا۔ لیکن مجاز اتھارٹی کی نااہلی کی بنا پر اب پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی جسے پاکستان کی اقتصادی ریڑھ کی ہڈی بھی کہاجاتاہے ¾اسی جرائم پیشہ جماعت کے ایک ایسے شخص وسیم اختر کو میئر شپ پر بٹھا دیا گیا ہے جس نے اپنے قائد کے حکم پر 100 انسانوں کو قتل کیااور 11مئی کے سانحہ میں ملوث ہے جس کے لئے اس پر فرد جرم عائد ہونے والی ہے ۔ کیا پاکستان مخالف نعرے لگانے والوں کو یہ انعام اس لیے دیاگیا کہ وہ رہی سہی کسر بھی پوری کردیں اور جرائم پیشہ افراد کی مزید سرپرستی کرتے ہوئے رینجر کی محنت پر پانی پھیرکر ایک بار پھر کراچی کو اسی مقام پر لے جاکر کھڑا کریں جہاں نہ کسی کی جان و مال محفوظ تھی اور نہ ہی عزت ۔ بنگلہ دیش میں پاکستان زندہ باد کہنے والوں کوپھانسی کی سزا دی جارہی ہے جس پر ہمارے حکمرانوں کے لب خاموش ہیں لیکن کراچی جس میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کی فنڈنگ کااعتراف کتنی ہی مرتبہ سامنے آچکاہے وہاں پاکستان مخالف نعرے لگانےوالوں کو طشت میں رکھ کراچی اور حیدر آباد کے شہر پیش کردیئے گئے ہیں ۔یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا یہ ایک اہم سوال ہے جو ہر ذہن میں ابھرکر سامنے آرہا ہے اور پاکستان کے تحفظ کے لیے جانیں قربان کرنے والوںکی روحیں چیخ چیخ کر پوچھ رہی ہیں کہ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو پھر ہمیں قربانی کا بکرا کیوں بنایاگیا۔!