بے اعتباری اس پھول کی طرح ہے جو خوشبو سے محروم ہوجائے قول اور فعل میں ایسی ہم آہنگی کہ انگشت نمائی کی گنجائش ہی نہ رہے اعتبار کی بنیاد بنتی ہے یعنی یہ جو ہر شخصی کردار کے بطن سے ہی جنم لیتا ہے۔ ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنونیئر ڈاکٹر فاروق ستار کے اس بار بار اعلان کے باوجود کہ وہ دریدہ دہن الطاف سے لاتعلقی کا قدم اٹھا چکے ہیں بے یقینی کے بادل بدستور چھائے ہوئے ہیں اعتبار کیوں نہیں آرہا اسے ڈرامہ کیوں سمجھا جارہا ہے اس سوال کا جواب خود فاروق ستار کے اعمال و اقوال کے آئینہ میں دیکھا جاسکتا ہے ۔سرزمین پاک کے حوالے سے دریدہ دہن الطاف نے جو ہرزہ سرائی کی اس کی مذمت تو کی جاتی ہے مگر اس شخص کی مذمت سے گریز کا رویہ اپنایا جارہا ہے فاروق ستار کا دعویٰ ہے کہ آئندہ ایم کیو ایم کی پالیسیاں پاکستان میں بنیں گی‘ لندن سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے اگر ایم کیو ایم کے کنونیئر نصرت ندیم نے بھی کوئی مشورہ دیا اور پارٹی کے مفاد میں نہ ہوا تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا اس کا مطلب ہے کہ نصرت ندیم کو مشورہ کے نام پر لندن سے فیصلے پہنچانے کی سہولت بدستور حاصل ہے دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ فاروق ستار نے ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہا کہ الطاف حسین کا کوئی مشورہ‘ فیصلہ یا حکم بھی نہیں مانا جائے گا۔ میڈیا کی جانب سے بار بار اصرار کے باوجود الطاف کو مردہ باد کہنے یا پاکستان مخالف باتوں اور نعروں پر غداری کا مقدمہ چلانے کی حمایت نہیں کررہے ۔ اسی طرح دراصل وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ ایم کیو ایم کو پاکستان کی سیاسی جماعت بنانے کے لئے وقتی طور پر الطاف کو قبول کرنا ہوگا کیونکہ کراچی کی اردو سپیکنگ آبادی بد دستور اس کے آسیب کا شکار ہے لیکن اس تاثر میں حقیقت اس لئے نہیں ہے کیونکہ ایم کیو ایم کے مختلف علاقوں میں دفاتر مسمار کئے جارہے ہیں بالخصوص شاہ فیصل کالونی‘ لائنز ایریا وغیرہ جیسے علاقوں میں جو ایم کیو ایم کے خاص گڑھ ہیں مگر کسی چڑیا کے بچے نے بھی چوں نہیں کی بلکہ اس موقع پر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ اسی طرح دریدہ دہن الطاف کی تصویریں پھاڑ کر سڑکوں پر پھینکی جارہی ہیں مگر کوئی ان پرزوں کو اٹھانے والا بھی نہیں ہے جو اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ کراچی کی اردو سپیکنگ آبادی الطاف کے آسیب سے چھٹکارہ پاچکی ہے۔
پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کے بقول الطاف کی ڈی این اے ہی نہیں کہ کسی دوسرے کو بطور لیڈر دیکھ سکے۔ 1992ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا عظیم احمد طارق نے قیادت سنبھال لی تھی خود الطاف کے تحفظ کے لئے اسے پارٹی سے الگ کرنے کا تاثر دیا گیا تھامگر عظیم احمد طارق کی قیادت تین ماہ سے زیادہ نہ چل سکی خود ان کے اپنے خون میں ڈوب کر قصۂ ماضی بن گئی تھی کیا فاروق ستار عظیم احمد طارق سے زیادہ مضبوط ہیں۔
فاروق ستار کے الطاف سے علیحدگی کے دعویٰ پر بداعتمادی کا سایہ اس لئے بھی ہے کہ فوری طور پر رابطہ کمیٹی کو تحلیل نہیں کیا گیا رابطہ کمیٹی الطاف کے لئے بنائی گئی تھی کہ لندن سے رابطہ میں رہ کر الطاف کے فیصلوں پر عملدرآمد کیا جاسکے اب اگر واقعی الطاف سے کوئی تعلق نہیں رہا تو رابطہ کمیٹی کا کیا جواز ہے اس کی بجائے بلاتاخیر مجلس عاملہ یا ورکنگ کونسل بنائی جاتی جو فاروق ستار کے بقول پاکستان کے فیصلے پاکستان میں ہی کرتی، پاکستان اور لندن کی رابطہ کمیٹیوں کا بدستور برقرار رہنا الطاف سے عدم تعلق کی کھلی نفی ہے۔ فاروق ستار نے بڑی چالاکی کامظاہرہ یوں کیا ہے کہ یہ جو قبضہ کی جگہوں پر زبردستی بنائے گئے دفاتر گرائے جارہے ہیں ان کی مخالفت کرتے ہوئے ایک تو یہ غلط بیانی کی کہ جن جگہوں پر یہ دفاتر قائم ہیں جو عطیہ کردہ اراضی ہے ساتھ یہ کہا کہ وسیم اختر کو حلف اٹھانے دیا جائے ان سے پہلا حکم یہ دفاتر گرانے کا ہم خود جاری کرائیں گے۔ سوال یہ ہے عطیہ کردہ جگہ پر جائز تعمیر کو کیوں گرایا جائے گا دراصل یہ چکمہ دینے کی کوشش ہے کہ حلف اٹھا کر وسیم اختر کی بطور میئر پوزیشن مضبوط کردی جائے۔
فاروق ستار نے یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ جن افراد کو مختلف جرائم میں گرفتار کیا جارہا ہے ان کا ایم کیو ایم لندن سے تعلق کیوں ظاہر کیا جارہا ہے حالانکہ اس سے تو ایسے افراد سے ان کی لاتعلقی ظاہر ہورہی ہے ایسی باتوں سے اس حکمت عملی کے دعویٰ کی توثیق ہورہی ہے کہ فی الحال ایم کیو ایم کے عسکری ونگ اور سیاسی دھڑے کو الگ کردیا گیا ہے سیاسی مصلحتوں کے جھونکوں سے معاملہ ٹھنڈا پڑجائے گا تو پھر دونوں دھڑے دوبارہ یکجا کردئیے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق فی الحال عسکری ونگ کو براہ راست لندن اور جنوبی افریقہ کے ماتحت کردیا گیا ہے ۔کراچی میں موجود عسکری ونگ کے لوگوں کو بیرون ملک سفر اور موبائل فون استعمال کرنے سے روک دیا گیا ہے اور یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ خفیہ اجلاس بہت ہی قابل اعتماد ساتھیوں کے گھروں میں کیا کریں یہ براہ راست الطاف کو جوابدہ ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو قتل و غارت گری کے علاوہ ارکان اسمبلی کی نائین زیرو میں سب کے سامنے ٹھکائی کرتے رہے ہیں بہت سے لیڈر آج بھی ان سے خوفزدہ ہیں۔
ایک بہت بڑا سوال فاروق ستار سے یہ ہے کہ کیا وہ تمام ارکان اسمبلی‘ سیکٹر انچارج‘ یونٹ انچارج اور سرگرم کارکن جنہیں ’’حلف یافتہ‘‘ کہا جاتاہے نے فاروق ستار کو الطاف کی جگہ قائد تسلیم کرلیا ہے کیونکہ جب تک وہ اس حلف سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کرتے ان کاقائد الطاف ہی رہے گا اس حلف کے بعض الفاظ ناقابل تحریر ہیں تاہم اس میں پارٹی‘ پارٹی منشور یا ملک سے نہیں صرف اور صرف الطاف سے وفاداری کا حلف ہے جبکہ خود فاروق ستار بھی یہ حلف اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔ لاہور میں صحافیوں کے لئے یہ ہوش اڑا دینے والا منظر جب آواری ہوٹل میں ایم کیو ایم کے رہنمائوں جن میں فاروق ستار‘ عظیم احمد طارق‘ عامر خان‘ آفاق احمد‘ عبدالرزاق‘ بابر غوری‘ وسیم اختر وغیرہ شامل تھے الطاف سے بے وفائی کرنے پر اپنی مائوں بہنوں کے بارے میں جو الفاظ استعمال کررہے تھے وہ ضبط تحریر میں نہیں لائے جاسکتے یہ سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک مافیا ہے اب اگر فاروق ستار نے اسے مافیا سے واقعی سیاسی جماعت بنانے کا عندیہ دیا ہے تو پھر 1992ء جیسا ڈرامہ نہیں چلے گا بلکہ انہیں فی الواقعہ ایسے واضح اقدامات کرنے ہوں گے جن سے ان کے اس دعویٰ کو سچ تسلیم کیا جائے بصورت دیگر اب تک ان کے قول و فعل سے جو عمومی تاثر لیا گیا ہے وہ خود کو ‘ایم کیو ایم کے وابستگان اور الطاف کو بچانے کی سعی نامشکور ہی سمجھا جارہا ہے۔ نجی ٹی وی چینل میں گھس کر توڑپھوڑ کرنے والی خواتین سے اس لاتعلقی کا اظہار کہ ان کا ایم کیو ایم سے تعلق ہی نہیں ہے اور پھر ان کی رہائی کا مطالبہ اور یہ کہنا کہ بعض خواتین نے اگر جذبات میں آکر کچھ نعرے لگا دئیے تو اسے نظرانداز کردیا جائے پھر ان کی رہائی کے لئے مریم نواز شریف سے اپیل بلا جواز ہے کہ انہیں سندھ حکومت نے گرفتار کیا ہے اور حملے یا توڑ پھوڑ کے دوران صاف پہچانی جارہی ہیں یہ کیسی لاتعلقی ہے کہ ایسی حرکت کرنے والوں کو ’’ہمارے لوگ‘‘ قرار دیکر ان کی حمایت کی جارہی ہے گرفتار تو مختلف جرائم میں ملوث افراد ہورہے ہیں پھر یہ کہنے کا کیا جواز ہے کہ ’’مقتدر حلقے کام کرنے دیں‘ہمیں نشانہ بنایا جارہا ہے‘‘ بہرحال فاروق ستار کو اپنے کردار و عمل اور ٹھوس اقدامات سے ثابت کرنا ہوگا کہ یہ ڈرامہ بازی نہیں بلکہ واقعی ایم کیو ایم پاکستان الطاف سے ناطہ توڑ چکی ہے بلاشبہ اس حوالے سے فاروق ستار آزمائش کے دوراہے پر ہیں۔