لندن (بی بی سی رپورٹ )مجھے نہیں یاد کہ آخری بار کب ایک پاکستانی بلے باز کی سنچری نے مجھے اتنا مضطرب کیا تھا۔ انگلینڈ کے خلاف سرفراز احمد کی سنچری نے مجھے دکھ دیا۔جہاں یہ حقیقت ہے کہ ایسے موقع پر بیٹنگ کرنے آنا جب تین رنز پر دو وکٹیں گر چکی ہوں اور پھر انگلینڈ کے خلاف سنچری بنا دینا ون ڈے بلے باز کے لحاظ سے بہترین کارکردگی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ سرفراز کا 130 گیندوں پر یہ سنگ میل عبور کرنا اس بات کامظہر ہے کہ پاکستانی ٹیم جدید کرکٹ سے کس قدر نابلد ہے۔ایک وقت تھا جب ٹیم کے کسی ایک بلے باز کا سنچری بنانا فتح کی ضمانت ہوتا تھا۔ مگر آج کل ضروری ہے کہ آپ کے کئی بلے باز تیزی سے کھیلتے ہوئے 30، 40 رنز بنائیں۔ پاکستان کے پاس نہ تو ایسے بلے باز ہیں بلکہ ان میں سے کئی تو کسی بھی طریقے سے ہی اتنے رنز بنانے کی صلاحیت کے حامل ہی دکھائی نہیں دیتے۔اس صورتحال میں سرفراز کی اننگز اندھوں میں کانا راجہ والی بات تھی۔شعیب ملک نے جو اس ٹیم کے سب سی تجربہ کار کھلاڑی ہیں انگلینڈ میں اپنے سب سے زیادہ سکور کا ریکارڈ توڑنے کے لیے اس میچ کو چنا تو مگر ان کے 28 رنز کسی بھی طرح کافی نہیں تھے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے کریز پر آتے ہی رن بنانے کی شرح بھی متاثر ہوئی۔عماد وسیم کا ریٹ 100سے کہیں اوپر کیوں نہ تھا۔چار بلے بازوں کا سکور صفر رہا تو تین کا چھ رنز سے زیادہ نہ بڑھ سکا۔مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی کارکردگی بہت ہی شاندار لگتی ہے جب اس کا موازنہ خود اس سے کیا جائے۔ باقی دنیا کے معیار کے تو وہ پاسنگ بھی نہیں۔
ون ڈے سیریز میں 100 اوور کھیل کر پاکستان نے صرف دو چھکے لگائے ہیں اور ان کی مخالف ٹیم یعنی انگلینڈ کو ابھی تک دوسرے گیئر سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی ہے۔دوسرے ون ڈے میں ہدف عبور کرنے کے لیے چھ وکٹیں گنوانا اور 48 اوور کھیلنا جہاں یہ ظاہر کرتا ہے کہ انگلش ٹیم سست پڑ گئی تھی وہیں یہ بھی کہ یہ ایک یکطرفہ مقابلہ بن کر رہ گیا تھا۔مسئلہ یہ ہے کہ ان مسائل کا کوئی فوری حل نہیں۔ سفید گیند کی کرکٹ بلے بازوں کا کھیل بن چکی ہے اور جس دن پاکستان یہ میچ ہارا سمندر پار بھارت اور ویسٹ انڈیز کے میچ میں دونوں ٹیموں نے بیس اوورز میں پاکستان جتنا سکور بنالیا تھا۔