آج میں کالم لکھنے کے لیے آمادہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ دیکھتا ہوں کہ کالم لکھنے کو جی نہ کرے تو کیا لکھا جاتا ہے۔ ایک جملہ سنیں۔ ’’میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اس شخص سے ڈرتا ہوں جو اللہ سے نہیں ڈرتا۔‘‘ دوسرا جملہ بھی حاضر ہے۔ ’’کمزور لوگوں کو دوست بنانا اور ان پر بھروسہ کرنا حماقت ہے۔‘‘
پرسوں جو گزر گیا ہے ایک بڑے پاکستانی شاعر احمد فراز کی برسی تھی۔ شہر میں کہیں کچھ بھی نہ ہوا۔ صرف نعیمہ اور ذوالقرنین کے گھر پر کچھ دوست اکھٹے ہوئے۔ انہوں نے احمد فراز کا ذکر کیا۔
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
کوئی مانے نہ مانے، وہ مقبول شاعروں میں شاید پہلے نمبر پر تھے۔ شعر سنانے کا ان کا انداز بھی بہت رومانٹک تھا اور پسند کیا جاتا تھا۔ پاکستان کے سب سے بڑی تخلیقی شخصیت اور بڑے شاعر منیر نیازی کے ساتھ احمد فراز کھنچا کھنچا رہتا کہ منیر نیازی اپنے علاوہ کسی کو مانتا ہی نہ تھا۔
ہم نے تو منیر نیازی کو مان لیا تھا ان سے تخلیقی ایمان کی طرح محبت تھی۔ محبت ہی محبت تھی۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے شاعر تھے تو پھر احمد فراز سے بھی بڑا ہے۔ بہت بڑا۔
نعیمہ اور ذوالقرنین کچھ دنوں میں منیر نیازی اور احمد فراز کو اپنے گھر بلانا چاہتے تھے مگر منیر نیازی وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا۔ احمد فراز کو بھی دکھ ہوا۔ یہ تو نہ ہو سکا مگر میری اور احمد فراز کے درمیان کچھ صلح کی طرح کی کوئی چیز کرا دی گئی۔ میں کیوں ناراض ہوتا۔ وہ میرے بڑے تھے۔ ان کے ساتھ کئی مشاعرے پڑھے۔ دو ایک بار ان سے مجھے داد بھی ملی تھی۔
ہم نیشنل بک فائونڈیشن کے لان میں بیٹھے تھے۔ یہاں اکادمی ادبیات والوں کا کھانا تھا۔ ادیب شاعر کئی دائروں میں بکھرے ہوئے بیٹھے تھے۔ جہاں میں تھا وہاں فاطمہ حسن بھی تھی۔ احمد فراز آئے تو صرف میں ان کی پذیرائی کے لیے کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے کئی لوگوں کا مذاق اڑایا اور پھر داڑھی کی بات چھیڑ دی۔ میں خاموش رہا کہ میں ان معاملات کے لیے کسی کمپلیکس میں نہیں ہوں، مگر جب احمد فراز کی باتوں میں طنز اور تمسخر آیا تو میں نے انہیں منع کیا، وہ منع نہ ہوئے میں نے اُٹھ کر کرسی انہیں دے ماری۔ باقاعدہ لڑائی کے آغاز سے پہلے فاطمہ حسن بیچ میں کھڑی ہو گئی اور احمد فراز چلے گئے۔ مجھے افسوس ہوا کہ کسی نے ان سے کہہ دیا کہ میانوالی کے کچھ نوجوان اجمل نیازی کے پاس اکٹھے ہو گئے ہیں۔ احمد فراز کھانا کھائے بغیر وہاں سے کھسک گئے حالانکہ ایسی کوئی بات نہ تھی۔ بات بڑھانا میری عادت نہیں۔ آج ہم نے نعیمہ اور ذوالقرنین کے گھر اس شاندار شاعر کو یاد کیا یہاں آرٹسٹ صحافی خاور نعیم ہاشمی بھی تھے۔
اسلام آباد کلب میں محترمہ سرفراز اقبال کی برسی بھی منائی گئی۔ سرفراز اقبال ایک بہت گرمجوش اور مختلف خاتون تھی ۔ احمد فراز کے ساتھ اس کی بڑی دوستی تھی۔ اس کے ساتھ دوستی کا اعزاز مجھے بھی حاصل ہے۔ اسے دوست بننے میں کسی تکلف کا سامنا کبھی نہ ہوا۔ اس کا گھر ایک بڑا مہمان خانہ تھا۔ کئی شاعر ادیب تھے جنہوں نے اس کی انوکھی گھریلو میزبانی کا لطف اٹھایا۔ اس کے شوہر اقبال ملک اور اس کی بیٹی ثمینہ ملک ہر سال بڑی باقاعدگی سے یہ دن مناتی ہیں۔ ثمینہ بیرون ملک سے اسلام آباد پہنچتی ہیں۔ سرفراز خود شاعرہ ادیبہ نہ تھی مگر شاعروں، ادیبوں کی بہت بڑی مہربان اور میزبان تھی وہ میرے دس مرلے کے کوارٹر میں6۔ ڈی وحدت کالونی بھی آئی اور میں سرشار ہو گیا۔
کشور ناہید بھی اپنے گھر اکٹھ کرتی ہیں اپنے ہاں صرف مرد دوستوں کو بلاتی ہیں سرفراز اقبال کے دوستوں میں زیادہ تعداد مردوں کی تھی، مگر میرے گھر میں وہ میری بیوی کی زیادہ دوست بن گئی اور میں نے سکھ کا سانس لیا۔
ایک نوجوان شاعر عمران علی حیدر نے ’’وقارحرف‘‘ کے نام سے شاعری کا ایک انتخاب شائع کیا ہے جس کا نوجوان شاعر صدام ساگر کے نام انتساب کیا ہے اس میں صدام ساگر اور میرا کلام بھی شامل ہے۔ صدام ساگر کے کچھ اشعار:
حقیقت لکھ رہے ہیں داستانوں میں
نئے قصے بھی شامل ہیں پرانوں میں
ہمیں تو بارشوں کی ہے طلب اکثر
مگر وہ جو رہے کچے مکانوں میں