عدلیہ کا غازی علم دین

Aug 29, 2017

اسلم خان…چوپال

یہ کوئی عام فیصلہ نہیں ہے شان ناموس رسالت کے موضوع پر ایسی مستند اور معتبر دستاویز ہے جو آخرت میں جج صاحب کیلئے بخشش کا سبب بنے گی۔ یہ صدقہ جاریہ ہے۔ قانون کے دنیا میں اس موضوع پر یہ مستند تحقیقی ریفرنس ہو گا۔ جس سے آنیوالے زمانوں میں قانون دان‘ دانشور اور محقق استفادہ کیا کریں گے ہماری نسلیں اس پر فخر کریں گی کہ پاکستانی عدلیہ کے مایہ ناز فرزند جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کیسے شعبہ قانون کی خون آشام مافیوں کے سامنے ڈٹ کر شان ناموس رسالت پر پہرہ دیا تھا۔
جج صاحب! آپ کا بہت بہت شکریہ کہ مجھ عاصی اور خطا کار کو بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالنے کا موقع مل گیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور آپکو آقا و مولا صلعم کی زیارت نصیب فرمائے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اپنے قلبی احساسات بیان کرتے ہوتے قاری کو آبدیدہ کر دیتے ہیں کہ انہوں عشق رسولﷺ میں ڈوب کر اپنی واردات قلبی اپنے فیصلے کے ذریعے دنیا پر عیاں کر دی۔لکھتے ہیں‘ اس مقدمے کی تفصیلات نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیئے۔ آنکھوں کی اشک باری تو فطری تقاضا تھا، میری روح بھی تڑپ کر رہ گئی۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے دل و دماغ پر گزرنے والی کیفیت الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہو ں۔ قانون کے طلباء کی نظر میں ایک جج کی ایسی کیفیت کچھ نرالی تصور کی جاتی ہے اور یہ خدشہ رہتا ہے کہ جذبات میں شاید انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے لیکن یہ مقدمہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ذرا مختلف ہے کیونکہ اس مقدمہ میں عدالت کو کسی فریق کے ذاتی جھگڑے یا حق کا تصفیہ نہیں کرنا بلکہ اپنے نظرثانی کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بقائ، سلامتی اور تحفظ کے ضمن میں اپنی آئینی و قانونی ذمہ داری کو پورا کرنا ہے۔
اس مقدمے کی سماعت کے دوران یہ احساس بھی دامن گیر رہا کہ خود آقائے دو جہاں رسول پاکؐ کی ذاتِ گرامی مجھ سمیت ہر کلمہ گو سے یہ سوال کر رہی ہے کہ جب اللہ رحیم و کریم، میرے اور میرے اہل بیت، برگزیدہ صحابہ کرام اور امہات المومنین رضوان اللہ علیھم اجمعین کے متعلق غلیظ ترین الفاظ، بے ہودہ ترین ویڈیوز، واہیات ترین خاکے اور بد ترین پوسٹس انتہائی ڈھٹائی، دیدہ دلیری اور تواتر کے ساتھ سوشل میڈیا کے توسط سے پھیلائی جا رہی ہیں تو تمہیں نیند کیسے آ رہی ہے؟ تمہاری سانسوں کی آمدورفت کا تسلسل کیسے برقرار ہے؟ تمہاری زندگی میں روانی، تمہارے شب و روز میں چین و سکون اور تمہارے معاملات میں توازن کیسے قائم ہے؟ اس مقدمے کی سماعت کے دوران یہ خوف بھی رہا کہ کیا سوشل میڈیا پر ایسے گھٹیا، شرم و حیا سے عاری اور تمام اخلاقی حدود سے ماوراء پھیلائے گئے تحریری، تصویری اور بصری مواد کی موجودگی میں ہم شافع محشر، ساقی کوثر، سرور انسانیتؐ کو قیامت کے روز کوئی عذر پیش کرنے کے قابل ہوں گے۔
ناموس رسالت کے اس مقدمے کے آغاز سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو غیر ملکی اشاروں اور ڈالروں کی جھنکار پر بدمست ٹولے نے اپنا ہدف بنایا ان کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں نااہلی کا ریفرنس دائر کرنے کا ڈھنڈو رہ پیٹا گیا پاکستان کو شخصی آزادی کے نام پر مادر پدر آزاد سماج میں بدلنے اور محبت کی آشاؤں کی آڑ میں فحاشی و عریانی سیلاب میں غرق کرنیوالوں کی قیادت ’’قانونی بواسیر‘‘ کر رہی تھی جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کیخلاف ایسا کوئی ریفرنس آیا تو وہ اس کی کھلی عدالت میں سماعت کرنے کی درخواست کرینگے۔ اس فیصلے پر سارا عالم اسلام فخر کریگا جو تاقیامت اقوام عالم کیلئے رشد و ہدایت کا مینارۂ نور ہو گا …؎
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
ورحسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہ مصطفے پنہاں بگیر
پینٹ کوٹ میں ملبوس صوفی علامہ اقبال کی اللہ رب العزت سے یہ شاعرانہ التجا ہے، عشق مصطفیؐ کی انتہائ، عشق و محبت میں یقین رکھنے والے مہذب انسانوں کیلئے کامل وروشن مثال ہے۔ فرماتے ہیں ’دونوں جہاں سے بے نیاز میرے رب، میں فقیرومحتاج ہوں، تیری بے نیازی کا تقاضا تو یہ ہے کہ محشر کے دن میرے عذرقبول فرما لیکن اگر حساب لینا ضروری ہی ٹھہرے تو (میرے محبوب) محمد مصطفیؐ کی نظروں سے پوشیدہ لینا، میرے محبوب کے سامنے مجھے شرمندہ نہ ہونا پڑے‘ مثنوی اسرار خودی میں شاعر لاہوری مزید فرماتے ہیں،
در دل مسلم مقام مصطفی است
آبروئے ما ز نام مصطفی است
’’مقام مصطفیؐ ہر مسلمان کے دل میں موجود ہے۔ ہر مسلمان حضور کے نام پر مرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ میرا دل حضورؐ کی محبت سے خالی نہیں ہے‘‘ ۔پروفیسر عثمان اس شعر بارے لکھتے ہیں کہ ’’رسول اکرمؐ سے محبت محض جذباتی یا مذہبی نوعیت کی نہیں رکھتی۔ یہ محبت شخصی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نصب العین، ایک اسوہ، انسانی سیرت کی ایک معراج سے محبت ہے۔‘‘
جسٹس شوکت عزیز صدیقی پاکستانی عدلیہ کے غازی علم دین ثابت ہوئے۔ ان کا فیصلہ ان کو جنت میں لے جائیگا۔ یہ اصول کی بات تھی، قانون کا تقاضا تھا، مصلحتوں کی چادر اوڑھ کر بے حسی کی نیند میں غرق ہو جانیوالوں کو جھنجھوڑ کر ہوش میں لانے کا باعث اور خود کو جدت پسند ثابت کرنے کے پاگل پن کا شکار مریضوں کیلئے دوا تھی۔ 31 مارچ 2017ء کو یہ فیصلہ ’بدمست بھینسے، ذہنی موچیوں، روشنی کو جہالت ‘سے بدلنے والوں کے علاج معالجے کیلئے جاری ہوا۔ داخلہ، اطلاعات سمیت دیگر وزارتوں، محکموں اور آئی ایس آئی سمیت دیگر اداروں سے مکمل تحقیق و تصدیق سے عیاں ہوا کہ دانش اور دانائی کا قتل کرنیوالے کسی اور ہی ایجنڈے پر ہیں۔ دستور کی دفعہ 19کا جائزہ لے کرتقریر کی آزادی کا رونا رونے والوں کو ہوش دلائی گئی کہ یہ حق احترام اور حدود کے کچھ تقاضوں سے مشروط کیا گیا ہے۔ عدالتی فیصلہ میں سات احکامات جاری کئے گئے کہ (i) فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی اس مقدمہ کی تفتیش بمطابق قانون بالکل میرٹ پر کرے۔ معاملہ کی حساسیت اس امر کی متقاضی ہے کہ کسی نئی شکایت / درخواست کی صورت میں اس کا ابتدائی انکوائری کیلئے اندراج کیا جائے اور قانون کے مطابق کارروائی کو آگے بڑھایا جائے۔ (ii) پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) ایک جامع اور مربوط تفصیلی ضابطہ کار وضع کرے جس کے تحت گستاخانہ صفحات/ ویب سائٹس کی نشاندہی ہو سکے اور بلاتاخیر ضروری اقدامات کئے جا سکیں۔ چیئرمین پی ٹی اے کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ایک سائنسی طریقہ کار وضع کریں جس کے تحت عامتہ الناس کو گستاخی رسول اور فحش مواد کے سنگین فوجداری نتائج سے آگاہ کیا جا سکے۔
(iii) سیکرٹری وزارت داخلہ متعلقہ محکموں اور افراد کے تعاون سے ایک پینل / کمیٹی تشکیل دیں جو سوشل میڈیا سے گستاخانہ مواد کے خاتمے کیلئے ایک جامع مہم چلائے او ر ایسے افراد کی نشاندہی کرے جو ایسے قبیح جرائم میں ملوث ہیں اور ایسے افراد کیخلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔ (iv) چونکہ اٹارنی جنرل نے گستاخی رسول وغیرہ اور فحش مواد کی تشہیر جیسے جرائم کو انسدادِ برقی جرائم ایکٹ 2016ء اور دوسروں پر گستاخی کے جھوٹے الزام عائد کرنے کے مرتکب افراد کے حوالے سے قانون سازی کی بابت اقدامات شروع کر دیئے ہیں لہٰذا یہ توقع کی جاتی ہے کہ متعلقہ عہدیدار معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس حکم یعنی 31 مارچ 2017 سے ایک ماہ کے اندر ضروری اقدامات کرینگے۔ (v) جہاں تک ان پانچ بلاگرز کا تعلق ہے، جو پاکستان سے جا چکے ہیں، تو اس معاملے میں ایف آئی اے کو ہدایت کی جاتی ہے کہ قانون کیمطابق پیش رفت کرے اور اگر کوئی قابل گرفت شہادت میسر ہے تو ان بلاگرز کو واپس لایا جائے تاکہ ان کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو سکے لیکن اس معاملے میں قانون کے مطابق سلوک کے اصول کو مدنظر رکھا جائے۔ (vi) وزارت داخلہ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ملک میں کام کرنیوالی ایسی ’این جی اوز‘ کی بھی نشاندہی کریں، جو ملک میں گستاخانہ مواد اور فحش مواد کی اشاعت و تشہیر کے ایجنڈا پر گامزن ہیں، بلاشبہ ایسی این جی اوز بیرون اور اندرون ملک سے مالی امداد کے ذریعے کام کر رہی ہیں تاکہ ایسی این جی اوز کیخلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔
جسٹس شوکت لکھتے ہیں ’’یہ امر انتہائی لائق تشویش ہے کہ مملکت ِ خداداد میں بیرونی امداد سے چلنے والی این جی اوز اور نام نہاد دانشور انتہائی مکروہ فعل کو ایک منظم سازش کے تحت اسلام دشمن ایجنڈا پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نبی محترم حضرت محمدؐ کی پاکیزہ و مننّرہ شخصیت پر بے ہودہ، شرمناک اور گھٹیا الزامات لگا کر ا نکے مقام کو کم کرنے کی سعی لا حاصل کر رہے ہیں۔ (جاری)

مزیدخبریں