قارئین کرام آیئے آج کچھ باتیں اچھائی اور برائی کے حوالے سے کرتے ہیں ہمارے ذاتی خیال میں نیکی اور بدی میں جو بنیادی فرق ہے وہی اچھائی اور برائی کا فرق ہے مثال اس کی یوں سمجھ لیجئے کہ جس طرح خوشبو کا احساس نہیں ہوتا لیکن اس کے ارد گرد کا ماحول مہکتا رہتا ہے اسی طرح اچھے اور نیک لوگ بھی اپنے فیضان سے خود نا آشنا رہتے ہیں جبکہ ان کے ہاتھوں اور عمل سے بالواسطہ طور پر ہزاروں معتلقین کو فیض پہنچتا رہتا ہے اور یہی اصل میں کھری نیکی کا منتہا اور اس کی خوشبو ہے یہ خوشبو نہ صرف ان کے چہار اطراف پھرتی رہتی ہے بلکہ آنے والے زمانوں پر بھی پھیلی رہتی ہے اس کے برعکس برا اور بدنیت انسان خار کی مانند ہوتا ہے جس سے اس کے آس پاس کے لوگ زخمی ہوتے رہتے ہیں لیکن چونکہ کانٹے کو خود کانٹا نہیں چبھتا اس لئے نا آشنا و ماوراءرہتا ہے ایسے خار زار لوگوں کی دوستی اور دشمنی سے بچنے کا واحد طریقہ ان سے گریز و پرہیز ہے۔ حقیقت یہ ہے قارئین کہ بدی بنیادی طور پر احساس کمتری اور حماقت کی پیداوار ہے اگر برے انسان کو اتنی سمجھ ہوتی کہ اس کی برائی سے مد مقابل کے بجائے دونوں دنیاﺅں میں خود اسے نقصان پہنچ رہا ہے یا یہ کہ وہ اپنی بدی سے ایک اچھے دوست یا اچھے انسان کی اچھائی سے محروم ہو جائے گا، زندگی بھر ضمیر کی خلش اور ذہنی انتشار کا شکار رہے گا تو وہ شائد کبھی ایسا نہ کرتا بلکہ اس صورتحال سے مزید ایک کمتر صورتحال اور بھی ہے وہ یہ کہ احساس کمتری کا شکار برے لوگ نہ تو مکمل طور پر کبھی اچھے بن سکتے ہیں نہ ہی اچھی طرح برے بن سکتے ہیں نتیجتاً وہ دو کشتیوں کے سوار ہو کر تضاد کی سان پر کٹ کر بار بار نصف ہونے کی اذیت سے گزرتے رہتے ہیں اس حوالے سے میں سمجھتی ہوں اچھا بننے پر جتنا زور لگتا ہے برا بننے پر اس سے کہیں زیادہ زور لگتا ہے تو پھر کیوں نہ سارا زور اچھا بننے پر صرف کر دیا جائے اور برائی کو پورے زور سے رد کر دیا جائے۔ قارئین برائی کی اس سے بڑی برائی اور کیا ہو سکتی ہے کہ جب انسان بار بار اس کا ارتکاب کرتا رہتا ہے تو وہ بتدریج احساس کے اس زون یعنی خطے ہی سے باہر نکل جاتا ہے جس میں رہ کر وہ نیکی اور بدی میں امتیاز کرنے کے قابل ہو سکتا تھا۔ نتیجتاً وہ ہر قسم کے خوف سے عاری ہو کر کمینگی، بدنیتی اور برائی کرنے میں لگا رہتا ہے اور بزعم خود مطمئن بھی رہتا ہے اسی طرح اچھائی کی بھی اپنی ایک اچھائی ہے۔ ایک بار جب آپ اچھے بن جاتے ہیں تو پھر اچانک برے نہیں بن سکتے۔ آپ کو چار و ناچار اچھا رہنا پڑتا ہے اور اچھا سلوک بھی جاری رکھنا پڑتا ہے۔ یوں اچھائی ایک نامعلوم انداز سے آپ کی مجبوری بن جاتی ہے بلکہ بنتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ یہ آپ کے اندر دور دور تک اتر جاتی ہے۔
برا یا کمینہ انسان خام لوہے کی طرح ہوتا ہے جس سے کوئی دوسری چیز آسانی سے نہیں بنائی جا سکتی، کوئی زور نہیں ڈھالا جا سکتا اسے صرف توڑا جا سکتا ہے موڑا نہیں جا سکتا جبکہ اس کے مقابلے میں ایک شریف النفس انسان اصلی سونے کی مانند ہوتا ہے جو بار بار دوسرے کی مرضی میں ڈھل جاتا ہے، اذیت گزار کو معاف کردیتا ہے اور حالات و واقعات کے تابع ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حالات و واقعات اسکے تابع ہو جاتے ہیں برائی اور اچھائی کے حوالے سے اکثر ایک اور سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ برے انسان کو آخر اتنی مہلت ہی کیوں دی جاتی ہے؟.... تو اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ جس طرح رہٹ کے بیل کی آنکھوں پر سیاہ چمڑے کی عینک چڑھا دی جاتی ہے تاکہ وہ فاصلے کی طوالت دیکھ کر کڑھ نہ سکے یا رک نہ جائے اور اپنے دائرے میں گھوم گھوم کر اپنا مقررہ فاصلہ طے کرلے اسی طرح برے انسان کی آنکھوں پر بھی بے حسی کا سیاہ پردہ ڈال دیا جاتا ہے تاکہ وہ بدی کے تمام چکر پورے کرکے اپنے حتمی انجام کو پہنچ سکے بلکہ ایک لحاظ سے یہی فارمولا نیکوکار کیلئے بھی بنایا گیا ہے اس کی آنکھوں پر بھی بھولپن اور معصومیت کی عینک چڑھا دی جاتی ہے تاکہ وہ بھی اپنی اچھائی اور نیکی کا دائرہ مکمل کرلے ورنہ ممکن تھا کہ کھلی آنکھوں سے وہ بھی مد مقابل کی عیاری و مکاری سے بدک کر نیکی کا عمل چھوڑ دیتا یوں دونوں کو لاعلمی میں اپنا اپنا عمل پورا کرنے کا موقعہ فراہم کیا جاتا ہے اور دراصل یہی جزاءسزا کا سارا فلسفہ ہے بلکہ نیکی بدی کا خلاصہ ہے اس سلسلے کی دوسری مثال دیکھئے....
جس طرح پانی کو اُبالنے کیلئے آگ کو تیز تر کیا جاتا ہے تاکہ وہ اچھی طرح جوش کھا لے اور اسے مطلوبہ کام میں لایا جا سکے جبکہ دھیمی آنچ پر وہ مستقل طور پر نیم گرم پڑا رہے گا اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی کسی کے عمل کا نتیجہ دیکھنے کیلئے اس کے اہتمام کا فوری حکم صادر فرما سکتا ہے تاکہ سزا و جزاءکا اہتمام کر سکے ( گو کہ وہ اکثر معاف فرما دیتا ہے) تاہم شداد کو زمین پر جنت بنانے کی مہلت بلکہ اسے مکمل کرنے کا موقعہ دیا گیا لیکن جونہی وہ اپنی ابلیسی طاقتوں پر نازاں و فرحان اپنی جنت کے دروازے پر پہنچا تو اس کا ایک پاﺅں ابھی اندر اور ایک پاﺅں باہر تھا کہ وہیں جامدکر دیا گیا۔ کفار نے حضور پاک ﷺ پر جور وستم کی انتہا کردی گئی لیکن وہ نیکیوں کو پھیلانے کیلئے انتہائی ضبط و حوصلے سے کام لیتے رہے، بدیوں کے خلاف جنگ جاری رکھی لیکن افسوس آج کے فانی و خطا کار انسان نے تمام ارشادات ربانی اور حضور اور پرنور کا اسوہ حسنہ بھلا کر اپنے لئے خود ہی نیکی بدی اور اچھائی برائی کے بودے معیار قائم کر لئے ہیں جن کی وجہ سے خود ہی خسارے سمیٹتا رہتا ہے اور خود ہی رحمت الٰہی سے مایوس ہو کر نالاں رہتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح زہر کی حفاظت نہیں کی جا سکتی انسان خود کو خود ہی اس سے محفوظ رکھتا ہے، چکھتا تک نہیں کہ کہیں مرنہ جائے اسی طرح بدی سے بھی اسے خود ہی بچنا ہوگا تاکہ آہستہ آہستہ معاشرے سے برائی کی جڑ ختم ہو جائے اور نیکی کا سکون عام ہو۔