مکرمی! آخر کار ہڑتال کے بعد ینگ ڈاکٹرز اپنی ڈیوٹی پر واپس آ گئے اور حکومت نے انکے مطالبات تسلیم کر لئے حکومت جو اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی تھی کہ ینگ ڈاکٹرز سے مذاکرات نہیں کرینگے اور نہ ہی انکے سامنے گھٹنے ٹیکیں گے۔ حکومت نے اپنی رٹ قائم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ ہڑتالیں ڈاکٹروں کو نوکریوں سے بھی برخاست کیا۔ نئے ڈاکٹر بھی بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ مگر ”الٹی ہو گئیں سب تدبیریں“ اور حکومت کو ”ینگ ڈاکٹرز“ کے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ حکومت کے کارپردازوں سے کوئی پوچھے کہ اگر مطالبات تسلیم ہی کرنا تھے تو پہلے روز ہی کر لیتے۔ مریضوں اور انکے لواحقین کو کس ناکردہ جرم کی سزا دی گئی؟ یہ کوئی پہلا موقع نہیں اس سے قبل بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں اس سے قبل بھی ”ینگ ڈاکٹرز“ نہ مسز، کسان مزدور ”دہقاں تاجر کلرکس،، غرض کیا کوئی نہ کوئی طبقہ سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے اور دھرنا دیتے رہے اور حکومت اپنی ہٹ دھرمی دکھاتی رہی میں نہ مانوں کی رٹ لگائے رکھی ”آخر کار جب کسانوں نے اپنی صفوں کو ”مال روڈ“ کی سڑکوں پر آگ نہ لگائی حکومت نے انکے مطالبات تسلیم نہ کئے محکمہ صحت میں دو دو صوبائی وزیر، سیکرٹریوں کی بھرمار مگر مطالبات ماننے یا مظاہرین کو کنٹرول کرنے کی سکت کسی میں بھی نہیں اس لئے آئے روز کبھی ”ڈاکٹر، کبھی نرسز،، کبھی کسان کبھی کلرکس اور کبھی تاجر سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ حکومت کیوں نہیں ڈاکٹروں کا سروس سٹرکچر بناتی۔ آئے روز وہ ہڑتال کر کے مریضوں کی زندگی سے کھیلتے رہتے ہیں ڈاکٹر حضرات بھی خدا کا خوف کھائیں وہ سوچیں کہ کیا وہ اپنے مقدس پیسے سے انصاف کر رہے ہیں۔ بقول شاعر
ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا
(راﺅ محمد محفوظ آسی ٹاﺅن شپ لاہور)