خوددار پاکستان ریلی

قوموں پر کبھی ایسا وقت بھی آتا جاتا ہے جب انہیں آزادی و غلامی ‘ عزت و ذلت اور حمیت و بے حمیتی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتاہے۔ یہ امتحان کا وقت ہوتا ہے‘ تاریخ ساز فیصلے کی گھڑی ہوتی ہے ۔ اس کے انتہائی دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں قوم کے حال پر اور مستقبل پر بھی۔ جو قومیں آزادی‘ عزت اور غیرت کو ترجیح دیتی ہیں‘ وہ بالآخر سرخرو ہو جاتی ہیں اگرچہ ابتداء میں انہیں شدید مسائل کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ جو اقوام دوسری راہ کا انتخاب کرتی ہیں‘ ذلت و رسوائی اور اغیار کی غلامی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ پاکستانی قوم کو بھی آج ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ یہ ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک راستہ عزت اور دوسرا ذلت کا ہے۔ برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد قدرت نے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کو زیادہ مہلت نہ دی۔ ان کے بعد قائد ملت کو شہید کر دیا گیا۔ پھر بانیٔ پاکستان کے بے لوث ساتھیوں کو بتدریج کاروبارِ مملکت سے الگ کر کے اُس مفاد پرست ٹولے نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی جس کا تحریک آزادی سے دُور دُور کا بھی کوئی واسطہ نہ تھا۔ یہ ٹولہ ذہنی طور پر پہلے برطانیہ اور بعد ازاں امریکہ کا غلام تھا۔ چنانچہ اس وقت سے آج تک پاکستان امریکی غلامی کی دلدل میں دھنس رہا ہے لیکن اب … غالباً خدائے بزرگ و برتر کو اس قوم پر رحم آ گیا ہے … اور اس نے اسے امریکہ کی ذہنی غلامی سے آزاد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کئی ماہ کی طویل مشاورت کے بعد گزشتہ دنوں امریکی صدر نے افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کیا۔ بظاہر تو یہ افغانستان میں 16 سال سے جاری جنگ کو جیتنے کا روڈ میپ ہے مگر بباطن یہ امریکی پالیسیوں کی ناکامی کے لیے قربانی کا بکرا تلاش کرنے کی ایک سعیٔ لاحاصل ہے۔ پاکستانی عوام کے بھی کان پک چکے تھے ڈو مور کی تکرار سنتے سنتے۔ ایک فوجی آمر نے جب افغان عوام کے خلاف برپا کی گئی امریکی جنگ کو اپنی کہہ کر گلے لگایا اور ان پر آتش و آہن برسانے کے لیے اپنا کندھا پیش کیا تو اس وقت بھی اس مملکتِ خداداد سے محبت کرنے والے اہل فکر و نظر نے اس فیصلے کو انتہائی نقصان دہ قرار دیا تھا مگر تب آمریت تھی اور مشاورت سے فیصلے کرنے کی عادت ناپید۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ پاکستان پر پوری طرح مسلط ہو گیا۔ اس کے سفیر کو وائسرائے کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ پاکستانی عوام اس صورتحال پر بہت سٹپٹائے مگر کیا کرتے‘ ہمیشہ کی طرح وہ بالکل بے بس اور بے اختیار تھے۔ الحمدﷲ! امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان کے خلاف زہر میں بجھے خطاب نے پاکستانی قوم کی غیرت و حمیت کو بیدار کر دیا ہے اور خیبر تا کراچی عوام امریکہ کو اس کی اوقات یاد دلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہیں ایک ایک کر کے وہ سارے واقعات یاد آگئے ہیں جب امریکہ نے پاکستان سے تعاون طلب کیا اور بدلے میں اس کی خود مختاری کو پامال کیا۔ اس کے ازلی دشمن بھارت کو افغان سرزمین پر دہشت گردی کے کیمپ قائم کرنے کا موقع دیا اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے کابل کو سی آئی اے‘ این ڈی ایس‘ را اور موساد کا بیس کیمپ بنا دیا۔امریکی صدر کی تقریر درحقیقت پاکستان کی علاقائی خودمختاری کو براہ راست للکار ہے۔ ٹرمپ کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے بھی پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی ہے۔ دیکھا دیکھی بھارتی فوج کا سربراہ جنرل بپن راوت بھی میدان میں کود پڑا۔ اس نے بھی امریکی دھمکی کو خوش آمدید کہتے ہوئے پاکستان کے خلاف اپنے مذموم عزائم کا کھلے بندوں اظہار کر دیا ہے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اس سنگین صورتحال پر خاموش نہیں رہ سکتا تھا‘ لہٰذا اس نے تحریک پاکستان کے کارکنوں سے رہنمائی لیتے ہوئے ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں مختلف سیاسی جماعتوں اور محب وطن تنظیموں کے عہدیداران سے ایک مشاورتی اجلاس منعقد کیا ۔ اجلاس کی صدارت ٹرسٹ کے چیف کوآرڈی نیٹر میاں فاروق الطاف نے کی۔ اجلاس میں باہمی اتفاق رائے سے فیصلہ کیا گیا کہ بدھ 30 اگست 2017ء کو ایک عظیم الشان ’’خوددار پاکستان ریلی‘‘ کا انعقاد کر کے امریکہ‘ بھارت اور دیگر بدخواہوں کو یہ دو ٹوک پیغام دیا جائے کہ وہ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں‘ اس کی وحدت اور سالمیت کے تحفظ کی خاطر ہر پاکستانی سربکف ہے۔ اس موقع پر ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے کہا کہ ’’خوددار پاکستان ریلی‘‘ ایک قومی جذبے کے تحت نکالی جائے گی اور یہ ہر قسم کی سیاسی‘ گروہی اور فرقہ وارانہ وابستگیوں سے مبرا ہو گی۔ مسلمانان ہند نے حصول پاکستان کی جنگ میں بھی باہمی اتحاد اور یک جہتی کی بدولت فتح حاصل کی تھی اور آج وطن عزیز کی بقاء اور خودداری کو درپیش اس چیلنج کے مقابلے میں بھی ہم متحد اور یک جہت ہو کر بفضل خدا سرخرو ہوں گے۔ اس ریلی کے شرکاء 2 بجے دوپہر فیصل چوک (چیئرنگ کراس) پر جمع ہوں گے۔ وہ صرف پاکستان کا سبزہلالی پرچم اور امریکی دھمکیوں کے خلاف مذمتی پلے کارڈز اٹھائے ہوں گے۔ یہ ریلی شاہراہ قائداعظمؒ سے ہوتی ہوئی کشمیر روڈ پہنچے گی اور براستہ ایجرٹن روڈ لاہور پریس کلب کے قریب واقع امریکی قونصل خانے پہنچ کر وہاں ایک یادداشت پیش کرے گی۔ اس ریلی میں ملک کی تمام قابل ذکر سیاسی جماعتوں‘ مذہبی تنظیموں‘ تاجر برادری‘ اساتذۂ کرام‘ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات اور طلبہ بھرپور قومی جذبے سے شریک ہوں گے۔ یہ ریلی نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور پوری پاکستانی قوم کے اس عزم کا اظہار ہو گی کہ امریکہ ہو یا بھارت‘ پاکستان کو ترنوالہ سمجھنے کی کوشش نہ کریں۔ ایسا کرنے والے پر افواج پاکستان قہر خداوندی بن کر نازل ہوں گی اور ایسا کرتے وقت پاکستانی عوام ان کے کندھوں سے کندھے ملا کر کھڑی ہو گی۔ یہ ریلی پاکستانی قوم کے اتحاد اور یکجہتی کی ایک طاقت ور علامت ثابت ہو گی اور پاکستان کے اندر امریکہ کے زرخرید ایجنٹوں اور بھارتی شردھالوئوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچے کے مترادف ہو گی۔ ’’خوددار پاکستان ریلی‘‘ میں عوام کی بھاری تعداد میں شرکت اس امر کو ثابت کرے گی کہ پاکستانی عوام نے اپنے لیے غیرت مندی کا راستہ چن لیا ہے‘ امریکی غلامی سے ہمیشہ کے لیے آزادی حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور مادرِ وطن کے تقدس کے تحفظ کا عزم صمیم کر لیا ہے۔ ان شاء اﷲ! یہ ریلی جنوب مشرقی ایشیا میں جارحانہ امریکی پالیسیوں کے تابوت میں آخری کیل اور پاکستان کی ایک خوددار اور خودمختار ملک کی حیثیت بحال کرنے کی راہ پر ایک سنگ میل ثابت ہو گی۔ قارئین کرام ! اس ریلی میں ہر اس شخص کو شریک ہونا چاہئے جو اس مملکت خداداد سے محبت کا دعویدار ہے۔

ای پیپر دی نیشن