اسلام آباد (صباح نیوز+ بی بی سی) سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلوں کے خلاف صوبائی حکومت کی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے صوبے میں خواتین کے کرائسز سینٹر بحال کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کے کرائسز سینٹر بند کرنا گورننس کی بدترین مثال ہے، 50 فیصد آبادی کے لئے قائم سینٹرز کو بند کیا جارہا ہے اور وہی جماعت خواتین کو ملازمت کرنے سے محروم کرنا چاہتی ہے جس میں خواتین کی بڑی اکثریت ہے۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا حکومت نے عالمی معاہدوں پر دستخط کئے ہوئے ہیں اور انہی معاہدوں کی بدولت سالانہ کروڑوں ڈالرز وصول کئے جاتے ہیں، اگر خواتین کو بااختیار نہیں بنانا تو پہلے ان معاہدوں سے باہر آئیں۔ خواتین کو غلام بنانے کے بجائے انہیں بااختیار بنانا ہوگا، حکومت ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے مزید ٹھوس اور مربوط اقدامات کرے۔ صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جو خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہے لیکن یہی جماعت اپنے صوبے میں خواتین کو ان کے حقوق سے محروم رکھ رہی ہے۔ سماعت کے دوران صوبائی حکومت کا موقف تھا کہ فنڈز کی کمی ہے اس لئے صوبائی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ان سینٹرز کو چلا سکے۔ عدالت نے قرار دیا کہ کے پی کی حکومت ایک طرف خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہے جبکہ دوسری طرف انہیں اس سے محروم رکھا جارہا ہے۔ عدالت نے صوبائی حکومت کی طرف سے فنڈز کی عدم دستیابی کے عذر کو تسلیم نہیں کیا اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔