شاذیہ سعید
shazi1730@hotmail.com
ہم نے عید ،بقر عید خواتین کو نک سک سے تیار ہوتے دیکھا ہے تاکہ ان کے حسن کو چار چاند لگ جائیں۔ وہیں ایک مخلوق ایسی بھی ہے جسے قربانی سے قبل اسی انداز میں سجایا سنوارا جاتا ہے۔ جی ہاں ہم قربانی کے جانوروں کی ہی بات کر رہے ہیں، ان کی آرائش سے جانوروں پر کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن انکے مالکان کا محلے میں رعب ضرور پڑتا ہے۔ ہرسال عیدالاضحیٰ کے موقع پر مویشی منڈیوں میں جہاں قربانی کی جانوروں کی خریداری عروج پر پہنچ گئی وہیں منچلے نوجوان اپنے پسندیدہ جانور جس میں گائے ، بچھڑے اور بکرے شامل ہیں۔عیدالاضحیٰ کے موقع پر قربان گاہ میں جانے سے قبل قربانی کی جانوروں کو سجانے اور سنوارنے کا سلسلہ عروج پر پہنچ جاتا ہے۔قربانی کے جانور خریدنے والے منچلے نوجوان اپنے جانور کو منفردرکھنے کیلئے انہیں آرائشی سامان سے سجا کر گلیوں کے چکر لگاتے ہیں اور دیکھنے والوں سے داد وصول کرتے ہیں ۔ انہیں خریدنے کے بعد مویشی منڈیوں میں قائم آرائشی سامان کی دکانوں سے خوبصورت مہرے ، گلے کے ہار ، رنگین دوپٹے ، تاج اور پائل خرید کر انہں سجانے اور سنوارنے کے بعد گھروں کو لے جاتے ہیں تاکہ ان کے جانور محلے میں آئے ہوئے دیگر قربانی کے جانوروں سے منفرددکھا سکیں۔علاقوں میں قائم جانوروں کے آرائشی سامان کی دکانوں پر بھی نوجوانوں کا رش لگا رہتا ہے جہاں قربانی کے جانوروں کو سجایا جاتا ہے ۔جانوروں کو سجانے سنوارے کے لئے ان کی دکان پر ہر قسم کا آرائشی سامان موجود ہوتا ہے۔
منچلوں اور بچوں کو اس بات کی بالکل بھی فکر نہیں ہوتی کہ وہ جانوروں کی سجاوٹ پر کتنے پیسے خرچ کر رہے ہیں۔آرائشی سامان میں سب سے زیادہ پائل اور گلے کے گانے فروخت ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ بکراگانی،بیل گانی،گائے گانی،مختلف سٹائلز کی جھانجھریں،مورک، مورک بکرا، تلکہ، تکبارہ اور قلعے ہر دوکان پر دستیاب ہوتے ہیں جن کی قیمیتیں انکی ورائٹی اور کوالٹی دیکھ کر لگائی جاتی ہے۔ دکانداروں کے مطابق آرائشی سامان سے سجے ہوئے جانوروں کی قیمت عام جانوروں سے دو گنا ہو جاتی ہے۔جب جانوروں کے پیروں میں پائل باندھی جاتی ہے تو اس کی مخصوص آواز سے قربانی کے جانور کے آنے کا پتہ چلتا ہے اور ایک ، ایک پاو¿ں پر منچلے نوجوان تین سے چار پائل پہناتے ہیںتاکہ جب وہ چلے تو اس کی آواز دور سے ہی سنائی دے۔ جانوروں کی سجاوٹ میں مختلف شوخ رنگوں کے مہروں کا بھی استعمال بڑھ گیا ہے جن کی قیمت 500 سے 800 روپے تک ہے اور انہیں پہنا کر جانوروں کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ قربانی کے جانوروں کی آرائشی سامان کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی جبکہ دکانوں پر خریداروں کا رش بڑھنے سے دکاندار منہ مانگے دام وصول کر رہے ہیں ۔خاص طور پر جب جانوروں کو نمائش کے لئے پیش کیا جاتا ہے تو انکے دام مزید بڑھ جاتے ہیں۔قربانی کے جانوروں کو پہنائی جانے والی پائل کی آواز اتنی منفرد ہے کہ اسے سن کر ہی گھروں اور فلیٹوں میں موجود افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں بے ساختہ کھڑکیوں اور بالکونی کا رخ کرتے ہیں ۔ محلے کے دیگر جانوروں سے منفرد بنانے کے لئے قربانی کے جانوروں کو سنوارنے کے لئے ان پر مہندی لگانے کا بھی رجحان بڑھ رہا ہے اور خصوصاً دنبے، بھیڑ اور بکروں پر منچلوں نوجوانوں کی جانب سے انہیں مہندی لگا کر خوبصورت بنایا جاتا ہے۔قربانی کے جانوروں کو سجانے کیلئے جہاں نت نئے انداز اپنائے جاتے ہیں،وہیں گزشتہ برس روشنیوں کے شہر کے باسیوں نے اپنے جانوروں کوگانیوں اور جھانجھروں کی بجائے لائیٹوں سے سجادیا۔ کسی کو زیور تو کسی کو پھول، کسی کے گلے میں گھنٹی تو کسی کے سر پر تاج سجا دیا۔ جس پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔