18 جولائی 2012ء ، 22 اگست 2017ء یہ وہ دو تاریخیں ہیں جنہوں نے زندگی کا وہ رخ دکھایا جس سے میں روشناس نہ تھی۔ ادیب جاودانی ا ور فوزیہ ادیب دنیا کے لئے تو شاید دو نام ہوں لیکن اصل میں یہ جہد مسلسل کی وہ دو داستانیں ہیں جنہیں جب سے ہوش سنبھالا دن رات محنت کرتے دیکھا۔ میرے والد محترم ادیب جاودانی کا شمار لاہور کی اہم سیاسی، سماجی، صحافتی اور تعلیمی شخصیات میں ہوتا تھا۔ وہ معروف کالم نگار، چیف ایڈیٹر مون ڈائجسٹ، چیئرمین مون لائٹ سکول سسٹم، دانشور، نظریہ پاکستان کے داعی اور آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔ دوسری جانب میری والدہ بھی ماہر تعلیم چیئرپرسن مون لائٹ سکول سسٹم، آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن کی وویمن ونگ کی صدر انتہائی سوشل اور تصوف و روحانیت سے خاص رغبت رکھتی تھیں۔ وہ دونوں حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ سے خاص انسیت رکھتے تھے۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ میرے والد ہندوستان ہوشیار پور میلی سے ضلع فیصل آباد تحصیل سمندری تک کے سفر کی داستان جب بھی سناتے اشک بار ہو جایا کرتے تھے۔ 1947ء میں ہندو مسلم فسادات، تحریک آزادی، ہندوستان سے پاکستان ہجرت، سفر کی صعوبتیں اور پھر اسی اثناء میں اپنی والدہ (رانی) سے دائمی جدائی کا غم ان کی زبان کی لغزش اور نم آنکھوں سے دکھائی دیتا تھا اور یہ داستان وہ کئی بار باقاعدہ اہتمام سے ہم چاروں بہن بھائیوں کو اکٹھا کر کے سنایا کرتے تھے۔ اس کا ایک مقصد اس ملک پاکستان کو حاصل کرنے میں جو قربانیاں دی گئیں ہمیں ان سے روشناس کرانا تھا اور دوسرا شاید کہیں اپنا غم ہلکا کرنے کی کوشش بھی تھی۔
1947ء کے بعد انہیں 2007ء اور 2009ء میں ہندوستان جانے کا موقع ملا۔ 2007ء میں یہ موقع صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ ملا۔ جس کے بارے میں میری والدہ نے بتایا کہ باڈر پار کرتے ہی میں نے ادیب کی ایسی کیفیت دیکھی جو لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی تھی۔ جب ہوشیار پور میلی گائوں تک پہنچے۔ یہ وہ وقت تھا جب ادیب جاودانی اپنی جائے پیدائش کو دیکھ رہے تھے، گائوں والوں نے انہیں ان کے اصل گھر تک پہنچایا۔ اس سفر میں میرے بھائی کاشف ادیب بھی والد صاحب کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے اس سے پہلے ابو جان کو اس طرح دھاڑیں مار کر روتے اور اپنے گھر کی درو دیوار کو چومتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اس وقت وہ ادیب جاودانی نہیں ایک چھوٹا بچہ تھا جو کئی سالوں بعد اپنے گھر آیا تھا۔
2009ء میں ہندوستان کا دورہ ایک تعلیمی دورہ تھا۔ آج جہاں مون لائٹ سکول نسبت روڈ برانچ موجود ہے 1947ء میں آدرش پبلک سکول ہوا کرتا تھا جو آج بھی ہندوستانی دارالحکومت دہلی میں بڑے پیمانے پر خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ ان کی دعوت پر والدین کے ساتھ مجھے اور بڑے بھائی بلاول کوجانے کا موقع ملا۔ اس سفر میں ہمیں ہندوستانی نظام تعلیم کو قریب سے جانچنے اور اس وقت کے ایجوکیشن منسٹر اور MLA,s سے ملاقاتیں کرنے اور مجھے اور بڑے بھائی کو نوئیڈا غازی آباد کی ایک نجی یونیورسٹی کے کیمپس ریڈیو میں بحیثیت پہلے پاکستانی ریڈیو کاسٹرز پروگرام کرنے کا موقع بھی ملا۔
انسان کو اس کا نام نہیں اس کا کام بڑا بناتا ہے اور اس کی بہترین مثالیں میرے اپنے گھر میں میرے والدین کی صورت میں موجود تھیں۔ میرے والد جب پاکستان آئے تو وہ دور انتہائی کٹھن دور تھا۔ بہرحال تمام مشکلوں کو برداشت کرتے ہوئے اپنی تعلیم کو جاری رکھا ا ور صحافت کے شعبے سے منسلک ہوئے۔ انہوں نے صحافت میں قدم رکھتے ہی وفاق، تجارتی رہبر اور آفاق جیسے بڑے اداروں کے ساتھ کام کیا اور پھر اپنی صحافتی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے ماہنامہ ’’مون ڈائجسٹ‘‘ کا آغاز کیا۔ جسے ملک بھر کے سنجیدہ لوگوں سے پذیرائی ملی، وہ ابتداء ہی سے ذوالفقار علی بھٹو کے پرستار رہے اور بعدازاں بھٹو سے بے نظیر کے قتل کی داستان کو ایک کتاب کی صورت میں شائع کیا جسے ملک بھر کے صحافی، سیاسی اور سماجی حلقوں نے بہت پسند کیا۔ 70 کی رہائی میں مون لائٹ سکول کی بنیاد رکھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی شاخیں لاہور، فیصل آباد اور گجرات میں قائم کیں۔
میرے والد ہمیشہ ا یک بات کہا کرتے تھے بیٹا تعلیم کو کاروبار نہ بنانا جس دن یہ کاروبار بن گیا اس کی تاثیر اور مقصد دونوں ختم ہو جائیں گے میرے والدین نے تادم آخر مون لائٹ سکول کے ذریعے لاکھوں بچوں کو تعیم کے زیور سے آراستہ کیا اور یہ صدقہ جاریہ آج بھی جاری ہے۔ والدین خدا کا دیا ہوا انمول تحفہ ہیں جن کی برکت سے گھر، گھر لگتا ہے ان کی موجودگی قلب و روح کو ٹھنڈک کا احساس دلاتی ہے۔میری نوجوان نسل سے گزارش ہے کہ اپنے والدین کی قدر کریں۔
موت تو برحق ہے آج نہیں تو کل ہم سب کو جانا ہے لیکن مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے والدین نے جانے سے پہلے اتنے رشتے کمائے جو میرے علاوہ بھی انہیں یاد کر کے روتے ہیں۔ بحیثیت ان کی بیٹی کے میری زندگی کی اس پہلی تحریر میں شاید میرے جذبات میرے لفظوں پر ہاوی ہو گئے ہوں جس کے لئے معذرت خواہ ہوں لیکن میں نے اکلوتی بیٹی ہونے کے ناطے اپنے دل کی بات لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔
نوائے وقت کے تمام قارئین سے گزارش ہے کہ میرے والدین اورتمام مرحومین کیلئے فاتحہ ادا کر دیجئے گا۔ اللہ ان کی اگلی منزلیں آسان کرے اور جنت الفردوس کے اعلیٰ درجے پرفائز فرمائے اور ہمیں ان کے سلسلوں کو صدق دل سے آگے بڑھانے کی ہمت عطا کرے۔ (آمین یا رب العالمین)
ادیب جاودانی کی پہلی برسی
Aug 29, 2018