چین میں نت نئے سائنسی کمالات

سائنس و ٹیکنالوجی کے سہارے ملک و قوم کی ترقی چین کی قومی حکمت عملی ہے۔2012 ء میں چین میں سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے تحقیق کے شعبے میں کل دس کھرب یوان کی رقم صرف کی گئی جو مالیت کے اعتبار سے دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر رہی۔چین کی حکومت ملک میں قومی منصوبہ بندی کے ذریعے سائنس و ٹیکنالوجی کی سرگرمیوں کی رہنمائی کرتی ہے۔چین کے قومی سطح کے سائنسی منصوبوں میں اعلیٰ سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق و دریافت، صنعت وزراعت، ہوا بازی کی صنعت ، قومی دفاع اور خلائی سائنس کے منصوبے شامل ہیں۔چین کی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے زیر اہتمام متعلقہ ماہرین یہ منصوبے مرتب کرتے ہیں جن پر عمل کیلئے بڑے شفاف انداز میںمتعلقہ تحقیقی ادار ے پروجیکٹ ہیڈ منتخب کرتے ہیںاور ان کیلئے رقوم مختص کی جاتی ہے۔برسوں کی کوشش کے بعد اس وقت چین میں سائنس و ٹیکنالوجی کا جامع تحقیقی نظام وجود میں لایا گیا ہے۔ کچھ بنیادی ، اعلیٰ اورنئے سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں چین کی دریافت کا معیار دنیا بھرمیں پیش پیش ہے،جن میں خلائی سائنس، سوپر کمپیوٹر ٹیکنالوجی وغیرہ شامل ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے حوالے سے چین کے قومی منصوبے کا آغاز مارچ 1997 میںہوا۔اس لئے اس منصوبے کو نو سات تین منصوبہ کہا جاتا ہے۔اس منصوبے میں زراعت، توانائی، ماحول ، آبادی، وسائل ، طب و صحت اور انفارمیشن سمیت قومی معیشت اور معاشرتی ترقی سے متعلقہ اہم و بنیادی سائنسی تحقیق کے پروجیکٹ شامل ہیں۔
حالیہ برسوں سے چینی حکومت نے اس منصوبے کے لئے اربوں یوان کی رقوم مختص کی ہیں جس کے تحت تین سو سے زائد پروجیکٹس عمل میں لائے گئے۔ان میں سے نیو میٹریل، علم الانصاب اور قدیم حیاتیاتی سا ئنس کے شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی تحقیق سے متعلق چین کے قومی منصوبے کا آغاز مارچ 1986میں ہوا اس لئے اس منصوبے کو آٹھ چھ تین کا منصوبہ بھی کہا جاتا ہے۔
چین کے اس قومی سائنسی ترقیاتی منصوبے میں حیاتیاتی سائنس، خلائی سائنس،انفارمیشن ٹیکنالوجی، لیزر ٹیکنالوجی ، نئی توانائی کی ٹیکنالوجی سمیت سات شعبوں کے پندرہ پروجیکٹس شامل ہیں۔آٹھ چھ تین ،منصوبے کے ذریعے چین کے میں جدید سا ئنس و ٹیکنالوجی کی دریافت اس شعبے میں ترقی سمیت اعلیٰ معیار کے سائنسدانوں کی تربیت کا کا جامع نظام وجود میں لایا گیا ہے۔
زرعی سا ئنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے چین کے اس قومی منصوبہ کو چنگاری منصوبہ کا نام دیا گیا ہے اس کا آغاز 1986 میں ہوا اس منصوبے کے تحت سائنسدانوں نے بہت زیادہ جدید زرعی تیکنیکس متعارف کروائیں جن کے زراعت میں اچھے نتائج برآمد ہوئے ، چین کی زراعت کو اس سے بڑی حد تک فروغ ملا اور کسانوں کو زبردست فوائد حاصل ہوئے۔
انسان بردار خلائی پرواز کا منصوبہ
چین کی انسان بردار خلائی پرواز کا منصوبہ 1992 میں شروع ہوا۔یہ منصوبہ تین مرحلوں پر مشتمل تھا یعنی پہلا مرحلہ میں چینی خلابازوں کو خلا میں پہنچایا جانا ، دوسرے مرحلے میں خلا میں مختلف خلائی جہازوں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرنا اور اور کم سے کم وقت میں انسان بردار خلائی لیبارٹری لانچ کرنا اور پھر تیسرے مرحلے میں طویل المدت انسان بردار خلائی لیبارٹری تعمیر کرنے کا منصوبہ شامل ہے۔منصوبے کے مطابق 2020 سے قبل چین باقا عدہ طور پر مستقل انسان بردار خلائی اسٹیشن قائم کرلے گا۔
چاند کی تحقیقات سے متعلق چین کا خلائی منصوبہ
چین کا یہ منصوبہ بھی تین مرحلوں پر مشتمل ہے۔یعنی پہلے مرحلے میں چاند کے گرد گردش کرنے والا تحقیقاتی مصنوعی سیارہ لانچ کیا جانا ہے۔اس کے بعد چاند پر لینڈنگ کرنے والی چاند گاڑی بھیجی جائیگی اور تیسرے مرحلے میں چاند کی سطح پر سائنسی تحقیقات کی جائیں گی اور چاند کی مٹی اور پتھروں کے نمونے زمین پر لائے جائیں گے۔
چین بین الاقوامی تعاون اور رابطے کے تحت سائنس و ٹیکنالوجی کی تحقیق کے سلسلے میں اپنے سائنسدا نوں کی ایک کثیر تعداد بیرون ملک بھیج رہا ہے۔ دوسری طرف چین کے بنیادی اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے تحقیقاتی پروجیکٹس میںغیرملکی اداروں کی شمولیت کا خیرمقدم بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے سائنسی تحقیق کے اہم بین الاقوامی پروجیکٹس میں چینی سائنسدان بھی حصہ لے رہے ہیں ان میں ہیومن جینوم پروجیکٹ اور گیلیلیو نامی خلائی تحقیق کا منصوبہ شامل ہیں۔
چین کے سائنسی تحقیق کے لئے خود مختار ادارے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں یا صنعتی و کاروباری اداروں کے ماتحت ریسرچ سینٹر کام کر رہے ہیں۔ خود مختار اداروں کی تعداد دو ہزار ہے۔یہ تحقیقی ادارے بنیادی سائنس ،ایپلی کیشن سائنس اور سوشل سائنس کے شعبوں میں تحقیقات کرتے ہیں۔ بیشتر بنیادی سائنس میں تحقیق کرنے والے ادارے چین کی سائنس اکیڈمی اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ماتحت کام کرتے ہیں جبکہ ایپلی کیشن سائنس کیلئے تحقیق کے اکثرادارے متعلقہ صنعتوں کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ 1949 میں قائم ہونے والی چین کی سائنس اکیڈمی چین کا سب سے بڑا سائنس ہے۔ اکیڈمی کے ماتحت ایک سو سے زائد ریسرچ انسٹیٹیوٹ ، چار سو سائنس و ٹیکنالوجیکل صنعتی و کاروباری ادارے اور تین یونیورسٹیاں قائم ہیں۔چینی سائنس اکیڈمی کے اسٹاف میں شامل دانشور چین کے سائنس وٹیکنالوجی کے شعبوں میں اعلیٰ ترین اعزاز کے حامل ہیں۔چین میں قدرتی سائنس کی تحقیق اور انسانی تہذیب و ثقافت کی سائنسی تحقیق کے شعبے میں یونیورسٹیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ مذکورہ بالا چھین خوا یونیورسٹی ، بیجنگ یونیورسٹی ، جے جانگ یونیورسٹی اور فوتان یونیورسٹی سمیت متعدد اعلیٰ تعلیمی ادارے اس سلسلے میں پیش پیش رہتے ہیں۔علاوہ ازیں چینی حکومت نے متعلقہ صنعتی و کاروباری اداروں میں ریسرچ سینٹرز کی تعمیر کے سلسلے میں سلسلہ وار اقدامات اختیار کئے ہیں تاکہ چین کی تخلیقی صلاحیت کو مسلسل بڑ ھایا جا سکے۔
(شینہوا نیوز)

ای پیپر دی نیشن