مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشتگردی میں اضافہ‘ نسل کشی کی تیاریاں‘ بھارتی فورسز کو فری ہینڈ‘ پولیس سے اسلحہ واپس
وفاقی کابینہ نے جمعہ کے روز کشمیریوں سے اظہار یک جہتی منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 12بجے دوپہر تا ساڑھے بارہ آدھے گھنٹے کیلئے بھرپور طریقے سے احتجاج کیا جائیگا۔ تمام ارکان قومی اسمبلی اپنے اپنے حلقوں میں عوام کی جانب سے کئے جانیوالے احتجاج میں بھرپور شرکت کو یقینی بنائینگے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت اور پاکستانی قوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہے اور بھارت کی جانب سے معصوم کشمیری عوام پر ہونے والے ظلم و ستم کو ہر سطح پر بھرپور طریقے سے اٹھایا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اپنے غاصبانہ اقدام کو چھپانے کیلئے پاکستان پر بے سروپا الزامات لگانے کی کوشش کرے گا۔ تاہم ہم نے بھرپور طریقے سے اس سازش کو ناکام بنانا ہے۔ وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پر بنائے گئے فوکل گروپ میں مشاہد حسین سید اور نوید قمر کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔دریں اثناء وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ وزیراعظم عمران خان بھارت کیلئے پاکستانی فضائی حدود بند کرنے پرغور کر رہے ہیں۔ بھارت افغان تجارت کیلئے زمینی راستے بند کرنے کی بھی تجویز پیش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تجاویز کابینہ کے اجلاس میں پیش کی گئی ہیں، ان اقدامات کیلئے قانونی امور پر غور کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں خالد محمود کی قیادت میں برطانیہ کے پارلیمانی وفد نے صدر آزادکشمیر سردار مسعود احمد خان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر مشترکہ پریس کانفرنس میں برطانوی پارلیمانی وفد نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر سے متعلق معلومات بہت کم آرہی ہیں۔ گرفتاریوں کیلئے کسی قاعدے قانون کی پابندی نہیں کی گئی۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے۔ادھر مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے تازہ ترین جارحانہ اقدامات اور کشمیری عوام پر ہندو کلچر ٹھونسنے کے خلاف ہزاروں افراد احتجاج کیلئے کرفیو اور دیگر پابندیوں کو توڑتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ قابض فورسز کی طرف سے مظاہرین پر گولیوں، پیلٹ گنز اور آنسو گیس کے بے دریغ استعمال سے متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق کشمیر پولیس کے تیس افسروں نے سرینگر میں بتایا کہ قابض بھارتی انتظامیہ نے انہیں سائیڈ لائن کر دیا ہے اور ان سے ہتھیار بھی واپس لے لئے ہیں۔فوج نے بڑے کریک ڈائون کی تیاریاں کرلی ہیں۔
آزاد ذرائع سے مقبوضہ کشمیر سے بھارتی کڑی پابندیوں کے باوجود جو خبریں آرہی ہیں‘ وہ بھارت اور اسکی وادی میں تعینات فورسز کی شدت پسند اور غنڈہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں۔ بھارت پہلے بھی کشمیریوں کیخلاف ظلم کا ہر ضابطہ آزما رہا تھا‘ اب کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اقدام کے بعد کشمیری آزادی کے نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ باہر نکلے ہیں تو ان کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے بھارت انسانیت کیخلاف انتہائی درجے کی کارروائیوں سے بھی گریز نہیں کررہا۔ اس نے فورسز کی تعداد نو لاکھ سے بھی زیادہ کردی ہے۔ ان فورسز کے کشمیریوں پر تشدد کیلئے مقبوضہ وادی میں عقوبت خانے اور ٹارچر سیل موجود تھے۔ اس وقت پورے کشمیر کی حالت گوانتاناموبے جیل سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ اب نیویارک ٹائمز کے مطابق کشمیریوں کو جہازوں کے ذریعے بھارت منتقل کیا جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مقامی پولیس کو سکیورٹی امور سے لاتعلق کرکے بھارتی فوج کو فری ہینڈ دیدیا گیا ہے۔ گویا نسل کشی کی تیاری ہے۔ بین الاقوامی تنظیم جینوسائڈ واچ پہلے ہی بھارت کی طرف سے کشمیریوں کی نسل کشی کی سازش سے پردہ اٹھا چکی ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھی انٹیلی جنس کی بنیاد پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی طرف سے کشمیریوں کے بڑے پیمانے پر قتل و غارت کی منصوبہ بندی سے دنیا کو آگا ہ کیا گیا ہے۔ عالمی برادری کی طرف سے بھارت کو وسیع پیمانے پر کشمیریوں کی قتل و غارت گری سے روکنے کا بندوبست کرنا ہوگا۔ کئی عالمی قوتیں پاکستان کے ساتھ صرف بیان بازی کی حد تک ہیں‘ لیکن اس جارح بھارت کا ہاتھ روکنے کی اور اسے شٹ اپ کال دینے کی اکثر میں جرأت نظر نہیں آتی۔ ایسے میں میں بدترین انسانی المیہ اور بحران جنم لیتا نظر آرہا ہے۔ کشمیریوں کو اس صورتحال کا ادراک ہے‘ یہی وجہ ہے کہ وہ سربکف ہو کر پابندیوں کو توڑتے ہوئے اپنی آواز دنیا تک پہنچانے کیلئے مظاہرے کرتے ہیں اور فورسز کی سفاکیت کا نشانہ بن رہے ہیں۔
پاکستان اپنے حصے کا کردار بخوبی ادا کررہا ہے‘ عالمی برادری کی بھارت کی جنونیت کیخلاف دنیا کی حمایت حاصل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جارہی۔ وزیراعظم‘ وزیر خارجہ اس معاملے کو لے کر متحرک ہیں‘ سفارتکاری فعال اور متعلقہ ادارے استعداد سے بڑھ کر معاونت کررہے ہیں۔ ایسے مواقع پر اپوزیشن کا ساتھ ہونا ضروری اور اہم ہے۔ اپوزیشن کو کشمیر ایسے یک نکاتی ایشو پر وابستگیوں سے بالاتر ہو کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنماء مشاہد حسین سید اور پیپلزپارٹی کے نوید قمر کو کشمیر پر فوکل گروپ میںشامل کرنا انکی کشمیر ایشو پر مہارت کا ادراک اور سیاسی وابستگی سے بالاتر سوچ کا عکاس ہے۔ 27 ستمبر کو وزیراعظم نے اقوام متحدہ سے خطاب کے دن تک ہر جمعہ کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے حوالے سے اپوزیشن سے امید ہے کہ وہ اس اہم معاملے میں قومی سوچ کا اظہار کریگی۔
عمران خان کی طرف سے کہا گیا تھا کہ کوئی ساتھ دے یا نہ دے‘ ہم کشمیریوں کو کسی صورت تنہاء نہیں چھوڑیں گے۔ اس بیان کے بھی مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ سعودی عرب کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی گئی ہے۔ عمران خان سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح انسانی بحران جنم لیتا نظر آرہا ہے‘ اس سے پاکستان کی طرف سے دنیا کو آگاہ کیا گیا اسی پر جس شدت سے رسپانس آنا چاہیے تھا‘ نہ آنے پر وزیراعظم کو بھارت کے حوالے سے سخت رویے کا اظہار کرنا پڑا۔ اس سے عالمی برادری کے ضمیر پر دستک دینے کی کوشش کی گئی جس سے بہتری کی امید ہے۔ البتہ پاکستان کے ساتھ ترکی‘ چین‘ ایران اور اب سعودی عرب جیسے ممالک مصلحتوں سے بالاتر ہو کر کھڑے ہیں۔ جنگ کی نوبت آتی ہے تو چین تازہ ترین دفاعی تعاون کے سمجھوتے کے تحت ’’اپنا کردار‘‘ ادا کریگا۔ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان سے چینی سینٹرل ملٹری کمیشن کے وائس چیئرمین جنرل ژو کی لیانگ نے ملاقات کی۔ اس موقع پر چینی وفد کے دوسرے ارکان بھی موجود تھے۔ ملاقات میں مقبوضہ کشمیرکی صورتحال پر بات چیت کی گئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے انہوں نے کشمیر میں بھارت کی غیر قانونی اور یک طرفہ کارروائیوں کا معاملہ بھی اٹھا دیا اور کہا کہ بھارت تین ہفتوں سے لاکھوں کشمیریوں کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کر رہا ہے۔ کرفیو اور لاک ڈائون سے خطے کے امن کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ بھارت معاملے سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے جھوٹی کارروائی کرسکتا ہے۔ اس نازک موقع پر چین کی طرف سے پاکستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد چین بھی اس تنازع کا ایک فریق بن چکا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے انسانیت کو شرما دینے والے اقدامات خصوصی طور پر اسکی خصوصی حیثیت کا خاتمہ پاکستان کیلئے ناقابل قبول اور براہ راست کشمیریوں کی مدد پر مجبور کررہا ہے۔ اس بہیمانہ اقدام کے بعد پاکستان کی طرف سے بھارت پر کچھ پابندیاں عائد کی گئیں‘ کچھ سہولتیں واپس لی گئیں‘ اب فواد چودھری کے بقول پاکستان مزید اقدامات پر غور کررہا ہے۔ بہتر ہوگا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل تک بھارت کے ساتھ ہر طرح کا تعلق قطع کرلے۔ جناب مجید نظامی مرحوم کا آخری دم تک یہی موقف رہا‘ وہ کہا کرتے تھے کہ بھارتی حکمران لاتوں کے بھوت ہیں‘ باتوں سے نہیں مانیں گے۔ انکی نظر میں بھارت مسئلہ کشمیر کے پرامن حل پر کبھی آمادہ نہیں ہوگا۔ کشمیر ہمیں اپنے زور بازو پر بھارت کے ظالم ہاتھوں سے چھیننا ہوگا۔ قائداعظم نے بھی یہی حکم دیا تھا‘ اب بھارت نے اپنے جارحانہ رویے اور بہیمانہ اقدامات سے قائد کے فرمان کی بجاآوری کو حقیقت سے قریب تر کر دیا ہے۔