طبی امداد کے منتظر کشمیری

بھارتی حکام نے مقبوضہ کشمیر کے تمام ہسپتالوں اور میڈیکل سینٹرز کے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے ڈاکٹر کو گرفتار کرلیا۔ ڈاکٹر عمر نے ایک پلے کارڈ اُٹھا رکھا تھا جس پر درج تھا کہ ’یہ احتجاج نہیں ہے بلکہ ایک درخواست ہے، برائے مہربانی مقبوضہ کشمیرکے تمام ہسپتالوں اور میڈیکل سینٹر کے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ بحال کردے جائیں‘۔ گرفتاری سے قبل ڈاکٹر عمر نے بی بی سی سے بات کی اور خبردار کیا کہ مقبوضہ کشمیرمیں موجودہ صورتحال انسانی بحران پیدا کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ’ہم خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے مریضوں کو سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں انڈین نیشنل ہیلتھ پروٹیکشن اسکیم کے تحت مفت طبی سہولت فراہم کرتے ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ’ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی عدم بحالی کی وجہ سے گزشتہ تین ہفتوں سے ضرورت مند مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہیں‘۔ ڈاکٹر عمر نے واضح کیا کہ ’ہمارے علم میں آیا ہے کہ متعدد مریض ڈائیلیسز اور کیموتھراپی کے لیے ادویات اور علاج اپنی مدد آپ کے تحت کررہے ہیں‘۔مقبوضہ کشمیر میں کرفیو سے انسانی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ طبی امداد اور ادویات نہ ملنے کے سبب مریض زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ امراض بڑھ رہے ہیں۔ ایک خاتون نے کہا کہ وہ دو ہفتوں سے اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن ناکام ہیں۔ ’پندرہ دن ہوچکے ہیں اور مجھے کچھ پتا نہیں کہ میری ذیابیطس کی مریضہ ماں جو انسولین استعمال کرتی ہیں کس حال میں ہیں اور انھیں انسولین ملی کہ نہیں۔گھر پر کوئی بھی لینڈ لائن کام نہیں کر رہی تھی حتیٰ کہ انٹرنیٹ بھی کام نہیں کر رہا تھا۔ میں نے حالات جاننے کے لیے ٹی وی چلایا لیکن کیبل بھی کاٹ دی گئی تھی۔ہمیں ہر روز فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کی آوازیں باقاعدگی سے سنائی دیتیں۔ نقل و حرکت پر مکمل پابندی تھی۔ ہم نے اپنا کھانا کم کر دیا کیونکہ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ کب تک چیزیں بند رہیں گی۔ہم سب گھروں میں نظر بند تھے۔ پوری وادی اخباروں، موبائلز، لینڈ لائنز اور انٹرنیٹ کے بغیر تھی۔ وقتاً فوقتاً فائرنگ کی آوازوں کی وجہ سے یہ شدید دباؤ والی صورت حال تھی۔ علاقے میں صرف ایک فارمیسی کو کھولنے کی اجازت دی گئی تھی اور وہاں بھی انسولین کم ہو رہی تھی۔ ایک جاننے والے کی والدہ کی طبیعت بلڈ پریشر کے باعث خراب ہو گئی۔ اس نے لینڈ لائن سے ایمرجنسی نمبرز پر کال کرنے کی کوشش کی کیونکہ 100 اور 101 کو ڈائل کیا جا سکتا تھا لیکن کئی بار کال کرنے کے باوجود بھی کوئی جواب نہیں ملا۔اس نے ایک ہمسائے کو ہسپتال چلنے کی درخواست کی لیکن ان کے راستے میں دو جگہ پر ناکہ بندی تھی جس پر کوئی اہلکار موجود نہیں تھا اور ان کی والدہ گاڑی میں ہی دم توڑ گئیں۔انتقال کر جانے والی خاتون کے بہت سے رشتہ داروں کو ان کی وفات کا علم نہ ہو سکا اور وہ جنازے میں شرکت نہیں کر سکے۔ ان میں سے کئی کو اب بھی اس بارے میں علم نہیں ہے۔سری نگر سے ایک ڈاکٹر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہسپتال عملے کو حکام کی جانب سے واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ جھڑپوں کے دوران زخمی ہونے والوں کو کم ہی داخل کریں اور انھیں جلد از جلد ہسپتال سے فارغ کریں تاکہ اعداد و شمار کم دکھائے جا سکیں۔
جہاں تک ہلاکتوں کی بات ہے تو لواحقین نے غصے میں بتایا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ سرکاری ڈاکٹر یہ کہہ دیں کہ وہ جھڑپوں کے دوران ہی ہلاک ہوئے یا کم از کم انہیں ڈیتھ سرٹیفیکیٹ ہی دے دیے جائیں۔کشمیری لیڈر یاسین ملک بھی شدید علیل ہیں۔ بھارت سرکار نے یاسین ملک کو گرفتار کر رکھا ہے وہ تہاڑ جیل میں قید ہیں ان کی طبیعت کی ناسازی کے حوالہ سے یاسین ملک کی ہمشیرہ اور والدہ نے سرینگر میں پریس کانفرنس کی تھی اس کے بعد یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ یاسین ملک کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔مقبوضہ کشمیر اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دی جا رہی ہے۔ نوے لاکھ انسان دنیا سے کٹ چکے ہیں۔ بیس روز سے بنیادی ضروریات سے محروم گھروں میں قید ہیں۔مسلسل کرفیو کے باعث مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہر لمحہ سسکتی زندگی دم توڑنے لگی ہے، جگہ جگہ بھارتی فوج کے اہلکار تعینات ہیں، شاہراہیں بند، موبائل، نیٹ اور ٹرین سروس معطل ہیں۔کشمیر میں بھارتی جارحیت کے ہاتھوں جس بے دردی و بے رحمی سے جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہئے کہ ان مجبور و مظلوم نہتے کشمیریوں کے لئے شدید احتجاج کریں تا کہ اقوام متحدہ بھارتی سرکار کو کرفیو ہٹانے پر مجبور کر دے۔

طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)

ای پیپر دی نیشن

پاکستان : منزل کہاں ہے ؟

وطن عزیز میں یہاں جھوٹ منافقت، دھوکہ بازی، قتل، ڈاکے، منشیات کے دھندے، ذخیرہ اندوزی، بد عنوانی، ملاوٹ، رشوت، عام ہے۔ مہنگائی ...