اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کونسے ایسے شعبے ہیں جن کے بارے اعداد و شمار کا جاننا ضروری ہے۔ ان کو سامنے رکھتے ہوئے ہم قومی اقتصادی ترقی کے لئے ، نئی نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔ مستقبل کی شماریاتی ترقی کے لیے تجاویز ملاحظہ کیجئے۔
درج ذیل موضوعات اور مقامات (Areas) کے بارے بمشکل ہی کوئی اعداد و شمار ملتے ہیں۔ اس لئے تجویز ہے کہ ان کے بارے اعداد و شمار کو تلاش کر کے ، اکٹھا کرنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں۔ اور یہ کام مستقل بنیادوں پر جاری رہنا چاہئے تاکہ اعداد و شمار نہ صرف برقرار رکھے جا سکیں بلکہ تازہ ترین (Up to date) اعداد و شمار کا اضافہ بھی کیا جا سکے۔
(1) لاء فرمز (Law Firms) اور اس سے متعلقہ سروسز
(2) چارٹرڈ اکائونٹنٹس و آڈٹ فرمز
(3) پرائیویٹ سکیورٹی سروسز مہیا کرنے والے ادارے
(4) رئیل اسٹیٹ بزنس
(5) بیوٹی پارلر
(6) جمنیزیم اور (Aerobate) سنٹرز
(7) میڈیکل اینڈ ہیلتھ سروسز
(8) سروے آف بھکاری
(9) سروے آف (Peddrers) اینڈ (Hawkers)
(10) این جی اوز (غیرسرکاری تنظیمیں)
(11) کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹیز
(12) انجینئرنگ اینڈ (Architectural سروسز)
(13) کنسٹرکشن کمپنیز اور اس کے متعلقہ ادارے
(14) کنسٹرکشن سروے
(15) پرائیویٹ تفریحی، ثقافتی سروسز
(16) کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے کی انتظامیہ
(17) نیٹ کیفے (Net Cafe)
(18) جنگلات کا سروے
(19) آرکیالوجی شمارت (Archueology)
مندرجہ بالا کاموں کے علاوہ آزاد جموں و کشمیر، فانا (FANA)، فاٹا (FATA) گلگت بلتستان کی زمین کا سروے کرایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ ایریا (Coverage) عمل میں لائی جاسکے۔ مزیدبرآں اس بات کی بھی سفارش کی جاتی ہے کہ وہ زمین جس کی ابھی تک پیمائش عمل میں نہیں لائی جاسکی یعنی کہ غیرپیمودہ علاقوں کی پیمائش کے عمل کو جنگی بنیادوں پر مکمل کرایا جائے تاکہ زمینی وسائل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جاسکے۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان کے لینڈر ریکارڈ سسٹم کو (Re-visit) کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس کی (Land Utilization) کو زیادہ سے زیادہ سطح پر لایا جاسکے۔ صوبہ بھر میں جو زمین کا ریکارڈ چلا آرہا ہے، وہ پرانے زمانے یعنی انگریز دور کا ہے جس میں لینڈ ریونیو بچانے کیلئے ہر موضع کی زمین کم سے کم ظاہر کی جاتی تھی تاکہ ٹیکس سے بچا جاسکے۔ یہ تمام پیمائشیں اسی دور کی ہیں جن کی پاکستان بننے کے بعد ایک بار پھر دیکھنا چاہئے تھا کہ کس قدر مینی قابل کاشت ہے یا دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہے کیونکہ اس وقت موضع کا زیرکاشت رقبہ مکمل رقبہ شمار کیا جاتا تھا۔
برطانیہ کو جنگ عظیم دوئم میں جنگی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے ریونیو کی ضرورت ہوتی تھی۔ مختلف معاہدوں کے تحت ٹوٹل ایریا (Total Area) یعنی قابل کاشت اور ناقابل کاشت رقبہ بہرطور نظرانداز کیا جاتا رہا۔
قبائلی سردار برطانوی حکومت کے ساتھ مختلف معاہدات کے تحت زمین کا رقبہ کم سے کم اندراج کرناتے تھے تاکہ حکومت برطانیہ کو ایک حد سے زیادہ ریونیو نہ دینا پڑے کیونکہ اس زمانے میں انگریز حکومت نے تمام زمین پر ٹیکس عائد کرنے کی کوشش کی تھی مگر قبائلی سرداروں نے حکومت برطانیہ سے مختلف معاہدوں کے تحت صرف وہ زمین ریونیو ریکارڈ میں درج کروائی جو اس وقت زیرکاشت تھی۔ اس وجہ سے موجودہ لینڈ ریکارڈ نامکمل ہے لہٰذا زمین کی ازسرنو پیمائش وقت کی اہم قومی ضرورت ہے۔
یہ سب کچھ اور مزید آپ کو نظر آئے گا (Essential of Statistics) کتاب میں جوکہ میاں محمد یونس صاحب ریٹائر ایگری کلچرل (Consus Commessioner) نے تحریر کی ہے۔ ان کا رابطہ نمبر ہے 0345-5387607۔
نوٹ: اس موضوع پر پورے پاکستان میں غالباً یہ پہلی کاوش ہے، امید ہے قارئین کو پسند آئے گی۔
مندرجہ بالا شعبہ جات کے متعلق اعدادوشمار جمع کرنے اور (Delimitation) کرنے کا کام ایک منظم نیشنل شماریاتی سسٹم کے تحت سرانجام دیا جاتا ہے۔ دنیا میں 3 طرح کے نیشنل شماریاتی سسٹم رائج ہیں، جن کی تفصیل یہ ہے:
(1)مربوط شماریاتی نظام (2)غیرمربوط شماریاتی نظام (3) نیم مربوط شماریاتی نظام
پاکستان کا شماریاتی نظام نیم مربوط شماریاتی نظام کہلاتا ہے، جس میں اعدادوشمار جمع کرنے کا زیادہ تر کام ملک کے اعلیٰ شماریاتی ادارے کے سپرد کیا جاتا ہے جو عمومی طور پر ایسے شعبوں کے متعلق اعدادوشمار جمع کرتا ہے جو دوسرے ادارے یہ کام سرانجام دینے کے قابل نہ ہوں۔ مثلاً مردم شماری اور زراعت شماری جیسے عظیم منصوبے کا کام اعلیٰ شماریاتی ادارے کے سپرد کیا جاتا ہے۔ ایسا ادارہ دیگر اداروں کے ذریعے جمع کئے جانے والے اعدادوشمار کے کام کی نہ صرف نگرانی کرتا ہے بلکہ ان اداروں کے درمیان کوآرڈی نیشن کے فرائض سرانجام دینے کے علاوہ جمع شدہ اعدادوشمار کی کوالٹی کو یقینی بنانے کے بعد ان کا حتمی اعلان کرتا ہے۔ پاکستان میں یہ کام مندرجہ ذیل اداروں کی وساطت سے سرانجام دیا جاتا ہے۔
شماریات ڈویژن‘ فیڈرل بیورو آف شماریات ‘ محکمہ مردم شماری‘ ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ سسٹم‘ ڈائریکٹوریٹ جنرل رجسٹریشن‘ نادرا (Nadra)‘ منسٹری آف نیشنل فوڈ کا اکنامک ونگ‘ منسٹری آف فنانس، ریونیو، اقتصادی امور، شماریات اور پرائیویٹائزیشن‘ فیڈرل بورڈ آف ریونیو۔ (ختم شد)