حضرت امیر معاویہؓ نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا ولی عہد نامزد کرنے کیلئے مختلف صحابہ کرام سے مشاورت کی- حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے ان کو مشورہ دیا کہ خلیفہ کے انتخاب کیلئے تین نظیریں موجود ہیں- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح کسی کو نامزد نہ کیجئے مسلمان جسے پسند کریں منتخب کر لیں گے- حضرت ابوبکرؓ کی طرح کسی کو نامزد کیجیے جس سے آپ کا کوئی تعلق نہ ہو - حضرت عمرؓ کی طرح چند آدمیوں میں سے ایک کا انتخاب شوری پر چھوڑ دیجئے- امیر معاویہ نے تینوں تجاویز سے اتفاق نہ کیا اور اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین نامزد کردیا اور اس طرح ملوکیت کا آغاز ہوگیا-حضرت حسینؓ عبداللہ بن زبیرؓ عبداللہ بن عمر ؓ عبد الرحمن بن ابی بکرؓ اور دیگر کئی ممتاز صحابہ کرام نے یزید کی ولی عہدی اور خلافت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا-یزید کی بیعت کے بغیر حضرت امام حسین کا مدینہ میں رہنا دشوار ہورہا تھا لہذا وہ مکہ منتقل ہوگئے-اہل کوفہ نے حضرت امام حسینؓ کو خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی اور آپ کی بیعت پر آمادگی کا اظہار کیا-حضرت امام حسین ؓنے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو حالات کا جائزہ لینے کیلئے کوفہ روانہ کیا-انہوں نے کوفہ کے حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد حضرت امام حسینؓ کو خفیہ اطلاع بھجوا دی کہ اہل کوفہ ان کی بیعت کیلئے تیار ہیں لہذا وہ تشریف لے آئیں -حضرت امام حسینؓ نے کوفہ جانے کی تیاریاں شروع کردیں-جب ممتاز اور برگزیدہ صحابہ کرام کو حضرت امام حسینؓ کے ارادے کا علم ہوا ہوا تو انہوں نے ان کو کوفہ جانے سے روکا-ان صحابہ کرام میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ بھی شامل تھے حضرت امام حسینؓ کا موقف یہ تھا کہ وہ کسی صورت یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور کوفہ کے لوگوں نے ان کو دعوت دی ہے لہذا ملوکیت کو روکنے کیلئے کوفہ جا رہے ہیں-
حضرت امام حسینؓ اپنے اہل و عیال اور رفقاء کے ساتھ مکہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے تو یزید کو کو انکی روانگی کی خبر مل گئی اور اس نے راستے میں مختلف مقامات پر حضرت امام حسین کو روکنے کیلئے اپنے پہرے دار بٹھا دیے تا کہ وہ کوفہ نہ جا سکیں-حضرت امام حسینؓ نے راستے میں ایک مقام پر اپنے رفقا کو خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا-
"لوگواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم اللہ تعالی کے عہد کو توڑنے والے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف اور اللہ کے بندوں پر گناہ اور زیادتی سے حکومت کرنیوالے بادشاہ کو دیکھا اور انکے قول اور فعل میں غیرت نہ آئی تو اللہ کو حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کر دے-لوگو خبردار ہو جاؤ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی ہے اور اللہ کی اطاعت کو چھوڑ دیا ہے ملک میں فساد پھیلایا ہے حدود الہی کو معطل کر دیا ہے - مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں اس لئے مجھ کو غیرت آنے کا زیادہ حق ہے "-
حضرت امام حسینؓ کے اس خطبے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کو اقتدار کی خواہش نہیں تھی بلکہ وہ ملوکیت کا راستہ روک رہے تھے اور قرآن و سنت سے انحراف کرنیوالوں کیخلاف جہاد کر رہے تھے-ایک مقام پر یزید کے اہلکار عمرو بن سعد نے حضرت امام حسین رض کے قافلے کو اپنے محاصرے میں لے لیا-حضرت امام حسین نے اس کو تین شرائط پیش کیں تاکہ قتل و غارت گری کو روکا جاسکے -اول یہ کہ میں جس طرف سے آ رہا ہوں اسی طرف مجھے واپس جانے دو دوم یہ کہ مجھے سرحد کی طرف جانے دو وہاں پر جہاد کرتے ہوئے شہید ہو جاؤں سوم یہ کہ تم راستے سے ہٹ جاؤ اور مجھے سیدھا یزید کے پاس جانے دو اس سے مل کر مکالمہ کر سکوں اور اس کو راہ راست پر لانے کی کوشش کروں-ابن زیاد کو حضرت امام حسین کی تین شرائط سے آگاہ کیا گیا جو اس نے مسترد کر دیں- حضرت امام حسینؓ کربلا کے مقام پر پہنچے تو ان کو یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ ان کیلئے بیعت یا جہاد کے علاوہ اور کوئی راستہ باقی نہیں بچا انہوں نے یزید کی بیعت کے بجائے اللہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دین کی خاطر شہید ہونا مناسب سمجھا- حضرت امام حسینؓ نے نویں محرم کی رات کو چراغ گل کر دئیے اور اپنے رفقاء سے کہا کہ جو بھی واپس جانا چاہتا ہے وہ جا سکتا ہے-
یزید کے لشکر نے حضرت امام حسینؓ اور انکے رفقاء پر پانی بند کر دیا تاکہ پانی کی بندش سے پیاس سے مجبور ہو کر وہ اپنے آپ کو یزیدی لشکر کے حوالے کر دیں۔ امام حسین اور انکے رفقاء نے کمال صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھکنے سے انکار کر دیا- حضرت امام حسینؓ کے ساتھ صرف 72جانباز موجود تھے- یزید کے چار ہزار لشکریوں نے ان کا محاصرہ کر رکھا تھا - اسلام کے مجاہد ایک ایک کرکے شہید ہوتے رہے اور حضرت امام حسینؓ تنہا رہ گئے مگر انہوں نے صبر اور حوصلہ نہیں ھارا اور یزیدی لشکر کا آخری سانس تک مقابلہ کرتے رہے ان کا جسم نیزوں کے زخموں سے لہولہان ہو چکا تھا وہ اللہ کے حضور آخری سجدے کے لئے جھکے تو شمر نے ان کا سر کاٹ کر نیزے پر چڑھا دیا - حضرت امام حسینؓ اور انکے رفقاء نے اسلام کیلئے اپنی جانیں قربان کر کے شہادتوں کی بے مثال تاریخ رقم کر دی جس کو چودہ سو سال گزرے کے بعد بھی غم الم اور عزم کے ساتھ پوری دنیا میں یاد کیا جاتا ہے- مسلمان اپنے اپنے انداز میں حضرت امام حسین ؓ کی بہادری اور شجاعت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں- مختلف شاعروں نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا-مفسر قرآن حکیم الامت علامہ اقبال نے فرمایا-
غریب و سادہ و رنگیںہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتداء ہے اسماعیل
مولانا محمد علی جوہر نے فرمایا-
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
سلطان باہو نے فرمایا-
جے کر مندے بیعت رسولی پانی کیوں بند کر دے ہو
پر صادق دین تنہا دا باہو جو سر قربانی کر دے ہو
٭…٭…٭