بزرگوں کا قول ہے ’کتابیں گھروں کی طرح ہوتی ہیں ، ان میں رہنا چاہئے ‘۔ آج کا مسئلہ یہ ہے کہ کتاب اور چھت کو عام آدمی کی زندگی سے نکال دیا گیا ہے ۔ اب کتاب خریدنا عیاشی میں شمار ہوتا ہے اور گھر کی سہولت خوش نصیب اور مراعات یافتہ طبقے کو حاصل ہے ۔ کالم نگار کے سامنے بیورو کریٹ طارق محمود کی خود نوشت ”دام خیال“پڑی ہے ۔ ناول نگار عبداللہ حسین نے لکھا : طارق محمود کی تحریر پڑ ھ کر جی چاہتا ہے کہ اسے پڑھتے جائیں۔ لیکن ایک بوڑھا آدمی بھلاکتنا پڑھ سکتا ہے ؟ آخر شب کے مسافروں کی پڑھنے کی استطاعت بھی گھٹ جاتی ہے ۔ اپنا دایاں بازو ٹوٹنے کے باعث چار ہفتے تک کالم نگار کیلئے 600صفحوں پر مشتمل اس کتاب کا اٹھانا بھی ممکن نہ تھا۔ پڑھنے کا مرحلہ تو بعد میں آتا ہے ۔ خیر جیسے تیسے کر کے یہ شاندار کتاب ختم کی ہے۔
مصنف کے والدین بٹوارے پر لکھنو¿ سے ہجرت کر کے ڈھاکہ جا آباد ہوئے ہمارے بچھڑے بنگالی بھائی ہماری قومی تاریخ کا سب سے المیہ باب ہیں۔ انہی کے بارے ناصر کاظمی پوچھ رہے ہیں۔ ”وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے ،وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے “۔ فیض احمد فیض بھی یہی سوال بنگالیوں کی مظلومیت کے پس منظر میں پوچھتے ہیں۔’کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار،خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‘۔ مصنف نے اس المیہ کے عام آدمیوں کے نظروں سے اوجھل کئی گوشے آشکار کئے ہیں۔ انہوں نے ایک باب میں اس کا تجزیہ کیا ہے ۔ ان کے مطابق ہندو ، بنگالی اور مسلم بنگالی کے فکر میں بنگال کے حقوق کے حوالہ سے کوئی فرق نہ تھا۔ مرکز گریز نظریات یہاں ہر بنگالی نوجوان کی شناخت اور پہچان بن چکی تھی ۔ اس عمل کے پیچھے تاریخ کا وسیع پس منظر تھا۔مسلمان ہوتے ہوئے بھی ایک بنگالی نوجوان سمجھتا تھا کہ اس کی شناخت اور بقاءکے یقینا ایک سے زیادہ حوالے موجود ہیں اور یہ حوالے کسی طور بھی اک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں۔ یہی ان کے اجداد کی سوچ بھی تھی جنہوں نے اس ملک کے حصول کیلئے ایک عظیم جدو جہد میں اپنا ناقابل فراموش حصہ ڈالا۔ڈھاکہ یونیورسٹی میں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ ذہین فطین طلباءپر مشتمل تھا۔ صوبہ بھر سے ہونہار طلباءکی ترجیحات اکنامکس اور فزکس کے مضامین تھے ۔ اس کے برعکس مغربی پاکستان میں سارا زور میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم پر ہوتا تھا۔ مشرقی پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں سے نمایاں پوزیشن ہولڈر اکنامکس اور فزکس کے شعبوں کا رخ کرتے ۔ یہاں سے فارغ ہو کر کچھ پی ایچ ڈی کیلئے نکل جاتے اور کچھ مقابلہ کے امتحان کی تیاری میں جُت جاتے ۔ بہت سے صحافت ، سیاست اور تدریس سے منسلک ہو جاتے ۔ ایک بات مسلم تھی کہ ذہنی آبیاری کیلئے اکنامکس کا شعور فکری اور نظریاتی قیادت کی اساس مہیا کر رہا تھا۔ وہ اعداد و شمار کو فکری سانچوں میں ڈھال کر سیاسی مکالمہ کو مخصوص انداز میں بڑھاوا دیتے اوربنگالی حقوق کی بات میں وزن پیدا کرتے۔ اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا کہ دنیا میں ایسی کونسی فیڈریشن ہے جس کی دو اہم اکائیوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ ہو؟ وہ بڑی بیباکی سے کہتے ’نہری پانی کے مسئلہ ، کشمیر ایشو اور ان معاملات پر اٹھنے والے اخراجات سے بھلا ہمارا کیا تعلق واسطہ ہے ‘۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان سمندر کے راستے تجارت پر مغربی پاکستان کے کاروباری جہاز رانوں کی اجارہ داری تھی۔ا س اجارہ داری کی وجہ سے طرح طرح کی قباحتیں پیدا ہو رہی تھیں۔ حسین شہید سہروردی نے سرکاری شعبہ میں ایک پبلک شپنگ کارپوریشن کے قیام کا عندیہ دیا تھا۔ لیکن شاید د باﺅ کے تحت حکومت کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ قوم پرست بنگالی یہ سب کچھ بڑے غور سے دیکھ رہے تھے ۔ سہروردی کی ذات میں متحدہ پاکستان کیلئے بہت بڑی امید تھی ۔ 1956ءکے بعد جمہوریت کی روشنی ضرور نمودار ہوئی لیکن اس پر جلد ہی مارشل لاءکی پرچھائیاں پڑ گئیں۔ مصنف نے لکھا کہ ایسی مایوس کن صورتحال میں مغربی پاکستان کے دانشوروں اور تعلیم یافتہ حلقوں کی بے حسی مجھے مایوس کر رہی تھی ۔ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ فوج اس قضےے کا حل نکال لے گی ۔ وہ بھولے سمجھے بیٹھے تھے کہ فوج تو عوام کی پذیرائی سے حوصلہ مندہوتی ہے ۔ جہاں غالب اکثریت فوج سے منہ موڑ چکی ہووہاں کامیابی کیسے ممکن ہے؟ 1977ءکی تحریک نظام مصطفی کے بارے میں بھی مصنف نے اپنا مختلف تجزیہ پیش کیا ہے جو بہت جاندار بھی ہے ۔ انہوں نے لکھا۔ ”میری دانست میں یہ بازار موومنٹ تھی ۔ اس تحریک کے ڈانڈے چاول چھڑنے والے کارخانوں اور جننگ فیکٹریوں ، تاجروں ، آڑھتیوں کے غم و غصے سے جا ملتے تھے ۔ قومیائی جانے والی پالیسی کو جب ہم بازاروں اور محلوں تک لے آئے تو متوسط درمیانے درجے کے طبقات کا رد عمل فطری تھا۔ انہوں نے حکومت کے خلاف اس تحریک کو غنیمت جانا اور اپنا تن من دھن سب کچھ اس پر لگا دیا۔ تحریک کا زور بھی منڈی ٹاﺅنوں میں شدت اور تواتر کے ساتھ تھا۔ جیسے ہی آپ میونسپل حدود سے باہر نکلتے ، ہر طرف چین ہی چین تھا“۔ کالم نگار کی رائے میں یہ سوال سنجیدہ تحقیق کا متقاضی ہے کہ الیکشن میں دھاندلیوں کے خلاف چلائی گئی تحریک یکا یک تحریک نظام مصطفی میں کیسے ڈھل گئی ؟
’دام خیال ‘اک عہد کی کہانی ہے جس میں ہمارے طارق محمود زیست بسر کرتے رہے ۔ انہوں نے اس عہد کی اپنی خودنوشت میں بہت واضح اور سچی تصویر کھینچی ہے ۔ اتنی سچی اور جاندار جتنی حضرت عباس تابش چاہتے ہیں۔
مت نکل تصویر سے باہر مگر اتنا تو ہو
ہونٹ ہلنے چاہئیں آوا ز آنی چاہئے