خود کشی یہ ہی نہیں کہ آپ اپنے گلے میں پھندا ڈال کر لٹک جائیں، زہر پی لیں، اپنے آپ کو گولی مار لیں ٹرین کے آگے کود جائیں بجلی کا کرنٹ لگا لیں، چوہے مار گولیاں کھا لیں یا کسی اونچی جگہ سے چھلانگ لگا لیں یہ بھی خود کشی ہے اور موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے کہ آپ دریا کے بیلٹ میں عمارت بنا لیں اور یہ تصور کر لیں کہ اب کونسا پانی آنا ہے۔ آپ دریا کے کنارے بغیر بنیادیں کھودے کچی مٹی پر اونچی عمارت کھڑی کر لیں آبی گزر گاہوں پر تجاوزات قائم کر لیں یہ سب اقدام خود کشی کے زمرے میں آتے ہیں۔ وارننگ کے باوجود محفوظ مقامات پر منتقل نہ ہونا بھی خود کشی ہے۔ یہ سوچ کر کہ دیکھی جائے گی اپنے آپ کوخطرات کے سپرد کر دینا سب خود کشی کے برابر ہے۔ دریاوں کے پشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے جاری فنڈز کھا جانا، پتھروں کی جگہ ریت کا بند بنا کر پیسے ہڑپ کر جانا دہشت گردی ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیاریوں کی مختص رقم پر عیاشی کرنا اور کاغذی کارروائیاں کرکے سب اچھا کی رپورٹیں دینا، لوگوں پر بم مارنے کے برابر ہے اور مصیبت کے ماروں کی بحالی کے نام پر آنے والے عطیات اور فنڈز کھا جانا تو مردار کا بدبودار گوشت کھانے سے بھی قبیح فعل ہے لیکن ہمارے لوگوں کو مرنا یاد نہیں اسی طرح اگر کسی سڑک پر گڑھا پڑ گیا ہے اور اس کی وجہ سے حادثہ ہو جاتا ہے تو اس سڑک کی دیکھ بھال کرنے والے اس حادثے کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے خلاف قتل کے مقدمات درج ہونے چاہئیں۔ اگر محکمہ کسی ان فٹ گاڑی کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کر رہا ہے تو ان ذمہ داران کو تو سرعام پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے۔ اگر کوئی خوراک میں ملاوٹ کرکے بیماریاں پھیلا رہا ہے اور ناقص ادویات تیار کر کے موت بانٹ رہا ہے تو اسے تو چوک میں باندھ کر اس پر بھوکے کتے چھوڑ دینے چاہئیں۔ اگر کوئی بلڈنگ انسپکٹر پیسے لے کر غلط عمارت تعمیر کرواتا ہے اور وہ گر جاتی ہے تو اس کے ذمہ داران کو ذبح کر کے اس عمارت کی بنیادوں میں دفن کر دینا چاہیے ۔کبھی آپ نے سوچا کہ پاکستان میں روزانہ آٹھ سے دس ہزار چھوٹے بڑے حادثات کیوں ہوتے ہیں اور اس میں روزانہ درجنوں لوگ کیوں مر جاتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کی ٹریفک ہم سے بہت فاسٹ ہے لیکن وہاں حادثات کم کیوں ہوتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ ٹریفک کے قوانین اور اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں وہ فٹ گاڑی کو روڈ پر آنے کی اجازت دیتے ہیں۔ان کی سڑکیں تجاوزات سے پاک ہوتی ہیں ۔وہاں کسی کو اپنی لائن سے دوسرے کی لائن میں آنے کی اجازت نہیں۔ وہاں بااثر افراد کو قانون کی خلاف ورزی پر سلوٹ مار کر چھوڑا نہیں جاتا۔ وہاں حفاظتی اقدامات ہر وقت مکمل رکھے جاتے ہیں۔ لوگ ذمہ داری کو فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں ۔ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر سمجھوتے کر لیے جاتے ہیں ۔ مجموعی طور پر ہماری بے حسی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کا بیشتر حصہ خوفناک سیلاب کی زد میں ہے۔ پاکستان کی بہت بڑی آبادی کا کل مال ومتاع پانی میں بہہ چکا ہے۔ ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہو چکیں ۔لاکھوں جانوروں کو پانی نگل گیا، پاکستان کی زراعت تباہ ہو گئی جس کے اثرات آنے والے دنوں میں بھگتنا پڑیں گے۔ پاکستان کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارا امپورٹ بل بڑھ جائے گا ۔زراعت اور دیہی صنعت سے وابستہ لوگ بے روزگار ہو چکے۔ سیلاب زدہ علاقوں کی ساری صنعت تباہ ہو گئی ہے مشینری پانی میں بہہ گئی یا چلنے کے قابل نہیں رہی۔ اگلے کئی سال ہمیں سیلاب کے اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔بدقسمتی یہ کہ نہ ہمارے پاس لوگوں کو بچانے کی کوئی پلاننگ تھی نہ بحالی کی کوئی پلاننگ ہے۔ ہم ہر کام دکھاوے کے لیے کرتے ہیں۔ ہیلی کاپٹروں پر فضائی جائزوں سے لوگوں کی مصیبتیں کم نہیں ہو سکتیں ۔ہمیں زمین پر اترنا پڑے گا۔ لوگوں تک پہنچنا انھیں خوراک پہنچانا انھیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنا اصل کام ہے، سیلابی پانی کی وجہ سے بیماریوں کا جو سیلاب آنے والا ہے اس کی ہم نے کیا تیاری کی ہے۔ ہماری حکومتیں مکمل تباہی کا انتظار کرتی ہیں ۔قبل از وقت اقدامات میں ہم مکمل فیل ہو چکے ہیں ۔اس کے بعد ریلیف کے کاموں کو ہم نے دکھاوے تک محدود رکھا ۔اب جب سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا ہے تو اپنوں اور بیگانوں کو آوازیں دے رہے ہیں۔سول سوسائٹی بھی میڈیا پر تباہی دیکھ کر متحرک ہوئی ہے ۔بین الاقوامی پابندیوں کے باعث ہم بہت اچھے کام کرنے والی فلاحی تنظیموں سے ہاتھ دھو چکے ہیں جن کا وسیع اور فعال نیٹ ورک تھا ۔ان کو کام نہیں کرنے دیا جارہا۔ حکومتوں پر لوگوں کو اعتماد نہیں کہ ان کے عطیات حق داروں تک پہنچتے بھی ہیں یا سیاسی جماعتوں کے کارکن کھا جاتے ہیں۔ ۔پاکستان میں صرف ایک ہی منظم ادارہ ہے اور وہ فوج ہے جس کے جوان ملک بھر میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ان کے پاس تربیت بھی ہے اور مشینری بھی ہے ۔ہمارا سول سیٹ اپ انتہائی بوسیدہ ہو چکا۔ سول ڈیفنس کا محکمہ ہم مفلوج کر چکے۔انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے اپنے ورکرز کو فلاحی کاموں کی تربیت نہیں دی نہ ہی ان کی تنظیم سازی اتنی مو¿ثر ہے جن کے ذریعے ریلیف آپریشن چلایا جا سکے ۔ ہماری پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ ایسے موقع پر جب عوام پانی میں ڈوب رہے ہیں خدارا ٹانگیں کھینچنے والی سیاست کو کچھ عرصہ فریز کر دیں صرف اور صرف ریلیف کے کاموں پر توجہ دیں۔ آئندہ الیکشن میں سیاسی جماعتوں کو عوامی خدمت کی بنیاد پر ووٹ ملنے چاہئیں۔