متا ثرین سیلاب کے مسائل
کو ہ سلیمان سے
احمد خان لغاری
ملک کے مختلف حصے جب شدید بارشوں اور سیلاب کی زد مین ہیں بلو چستان ہو یا پھر ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع راجن پور میں رودکوہیوںسے جو جانی اور مالی نقصان ہوا سوشل میڈیا پر منا ظر دیکھنے پر یقین نہیں آتا مگر یہ تصاویر بلا شبہ حقائق پر مبنی ہیں ۔ چاروں طر ف پانی میں گھرے علاقے ، سکول مسجدیں اور دیگر سرکاری اداروں میں پانی ہے ، قیادت کے یہ وہ مناظر ہیں جن میں متا ثرین میں بچوں کے ساتھ والدین کو بے بسی کی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ قدرت آفات میں جان و مال کا نقصان ہو تا ہے لیکن یکے بعد دیگر ے رودکوہیوں کے ریلوں میں بچا کچھا مال بھی سیلاب بر د ہو گیا۔ لو گ اپنے پیاروں کو دھونڈتے رہے اور تلاش بسیار میں ایک دوسرے سے ہمیشہ کیلئے جدا ہوگئے ۔
ایسی قدرتی آفتوں میں ہمارے سرکاری محکمہ جات لوگوں کی مدد کیلئے پہلے سے تیار نہیں ہوتے بلکہ وہ بد بخت اس صورتحال میں بھی اپنے مفادات کو تلا ش کر تے ہیں ۔نقصانات جانی ہو یا مالی وہ اپنی جگہ اہم لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کوئی مدد کو نہیں آتا، حکمران محض فضائی جائزہ لیکر ذمہ داری پوری ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے ضلعی انتظامیہ کہاں کہاں جائے ،اس کیلئے وسائل درکار ہوتے ہیں۔متاثرین کے نام پر امدادی سامان ہو یا سکول ، مراکز صحت، سڑکوں کی تعمیر و مر مت آنے والے دنوں میں انہیں سرکاری نقصانات میں شامل کر کے ایسے افسران و اہلکاران چند ما ہ تک خوب رقم بٹوریں گے ۔ پورے سیلابی علاقوں میں اپنی مر ضی سے مختلف راستوں اور بندوں پر کٹ لگا کر وہ علاقے ڈبو دیے گئے جنکا کوئی وارث نہ تھا۔ وہی علاقے بچائے گئے جہاں حکمرا ن طبقے کے مفادات تھے۔ ضلع ڈیرہ غازیخان اور ضلع راجن پور میں یہی پالیسی اپنائی گئی ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ راتوں کو خصوصی ہدایات پر سوئے لوگوں کو بند کاٹ کر ڈبو دیا گیا اور سرداروں کی لہلاتی فصلوں کاتحفظ کیا گیا ۔ ہمارے منتخب نمائندے نظر نہیں آئے، محض فوٹو سیشن ہورہے ہیں اسکے سوا کچھ نہیں ۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی طر ف سے کاروائیوں کو سرکاری محکمہ اطلا عات پوری کوریج دے رہا ہے جبکہ ڈیرہ غازیخان سے محض دو کلو میٹر سے بھی کم ڈی جی خان کینال اور کچھی کینا ل کے ساتھ پانی کوئٹہ روڈ پر فلور ملوں، پٹرول پمپوں اور دیگر صنعتی اداروں میں داخل ہو گیا اور وہ لوگ شدید متاثر ہوئے۔ کوئٹہ روڈ پر بلو چستان سے آنے والی ٹریفک لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے رکی ہوئی ہے ۔ بلوچستان سے آنے والی سبزیاں اور پھل وہیں پر گل سڑ رہی ہیں اور اِدھر سبزیاں عوامی پہنچ سے دور ہو رہی ہیںآلو پیاز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔
قارئین کرام ! ہمارے سیا سی رہنما شہباز گل سے فارغ ہوں ، عمران خان اپنے جلسوں سے فراغت حاصل کر لیں ، اس دھینگا مشتی میں عوام بے حال ہے ، غداری اور دہشت گردی کے مقدمات سے نمٹ لیں تو پھر عوامی مسائل کا جائزہ لیا جائیگا۔ فی الوقت کسی کو عام آدمی کی فکر نہیں بلکہ ایک دوسرے کو نیچادکھانے کی فکر ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اب فائنل رائونڈ ہے ۔ ایک دوسرے کو گرانے کی فکر میں ہیں، جبکہ سیلاب سے متا ثرہ لوگوں کیلئے مالیہ اور آبیانہ وصول نہ کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے ، کتنا مالیہ اور آبیانہ ہو گا وہ متا ثرین اپنی مدد آپ کے تحت اپنے کمرے مرمت کریں، راستے درست کریں، اپنوں کو سوگ منائیں یا پھرگمشدہ پیاروں کو تلا ش کریں۔ متاثرین کسی بجلی کے بل کی سکت نہیں رکھتے ۔ وزیر اعظم پاکستان نے کاروباری لوگوں اور تاجر حضرات کیلئے ریلیف کا اعلان کیا ہے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سیلاب سے متا ثرین لوگوں کے بجلی کے بل معاف کر دیے جاتے ۔ محض دوسو یونٹس تک بجلی کے بلوں میں مراعات کا کوئی فائدہ نہیں یہ ان کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے ۔ کاش مشکل کی اس گھڑی میں تمام سیا سی جماعتیں ایک موقف اختیار کر لیتیں کہ متا ثرین اور مظلوموں کی مدد کر نی ہے ، کسی پارتی کا کوئی کیمپ نہیں ، مذہبی جما عتیں بھی اس بار بہت دور ہیں وہ بھی شا ید عوام سے ووٹ نہ دینے کی وجہ سے ناراض ہیں ، مخیر حضرات بھی خاموش ہیں۔
متاثرین سیلاب اور سرداروں کی لہلہاتی فصلیں
Aug 29, 2022