آج میں خود کو بے بس محسوس کرتا ہوں ۔ ہم وطن سیلاب سے پریشان‘ مصیبت زدہ اور لاچار ہیں‘ اللہ پاک ان پر رحم‘ کرم اور عافہت کا معاملہ کرے‘‘ جماعت اسلامی کے امیر سینٹر سراج الحق کے خطاب کی وائرل وڈیو نے دل دماغ مفلوج کر دیا ہے۔ ان کا دردمندانہ خطاب متاثرین سیلاب کے دکھوں کی بھرپور نشاندہی کررہا تھا۔ سیلاب نے میرے دیس کو اطراف سے گھیر رکھا ہے صرف صوبہ خیبرپختونخواہ میں ایک لاکھ اسی ہزار افراد کی نقل مکانی کی اطلاعات ہیں ملک بھر میں ایک ہزار سے زائد انسانی زندگیوں کے چراغ بجھ چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد تین ہزار تک بتائی جارہی ہے ۔سوات کی تباہی کے دل ہلا دینے والے منظر ناقابل برداشت اور ناقابل بیان ہیں۔ کوہستان میں بے بس وبے یارو مدد گار پانچ نوجوانوں کا تین گھنٹہ تک ریسیکو ہونے کا انتظار کرنا اور پھر بے رحم لہروں کی نذر ہونے کا غم علیحدہ داستان لئے ہوئے تھے۔ دن اور رات کے رب سے دعا ہے کہ ہمیںہمیں اس آزمائش سے نکال ہمیں اپنے بھائیوں کی خدمت کرنے کی توفیق دے… وطن عزیز کے تمام صوبوں میں بارشوں کے بعد سیلابی صورتحال بہت سنگین ہے اور تین کروڑ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں بلوچستان میں ہوئی ہیں جو کہ 220 سے زائد ہیں۔موسمی تبدیلیوں کے براہ راست اثر کے طور پر اس مون سون کے دورا ن ہمیں غیر معمولی بارشوںکا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے کئی اضلاع میں سیلابی صورتحال اور بھاری نقصانات ہوئے ہیں۔ ایسے میں اپنی قومی ذمہ داری کے تحت، پاکستان آرمی نے نوٹیفائیڈ متاثرہ علاقوں میں ایک بھرپور ریسکیو اور ریلیف مہم کا آغاز کیا ہوا ہے۔ اب تک40,000لوگوں کو محفوظ مقامات اور 137سے زائد ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر مریم اورنگزیب نے ملک میں سیلاب کو قومی ہنگامی صورتحال قرار دیا ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور سندھ میں قدرتی آفت کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے نمٹنے کے لیے قومی جذبے کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے اور متاثرہ افراد کو امداد کی فراہمی کے لیے وسائل کو متحرک کیا جا رہا ہے یہ درست ہے کہ ملک میں ہی بہت زیادہ بارشیں ہوئیں لیکن سندھ میں ریکارڈ بارش ہوئی، بارش کے حالیہ اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں۔ سیلاب کی اس وقت جو صورتحال اور تیزی ہے وہ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی، اس سیلاب کے باعث سندھ، بلوچستان اور سوات میں تباہی کے مناظر ہیں، حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کی ہماری زندگی میں مثال نہیں ملتی حالیہ سیلاب کے دوران علاقوں میں موجود پانی 2010 میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے بھی زیادہ ہے، تواتر کے ساتھ بہت بڑی مقدار میں سیلاب کے باعث صورتحال خراب ہے۔وزیر موسمیاتی تبدیلی کا یہ کہنا تھا کہ حالیہ مون سون موسم جیسا سسٹم بھی ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا، ہم 8 ویں اسپیل سے گزر رہے ہیں جبکہ اس سسٹم کے تحت سندھ اور بلوچستان میں شدید بارشیں ہو رہی ہیں۔بارش سے 23 اضلاع آفت زدہ قرار دیے گئے ہیں، قومی ہنگامی صورتحال کا اعلان کردیا گیا ہے، سندھ کے 30 اضلاع مکمل طور پر ڈوبے ہوئے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف نے سیلاب متاثرین کے فوری امداد کیلئے 37اراب روپے سے زائد کی خطیر رقم سے ریلیف کیش پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے 25ہزار روپے فی خاندان مالی امداد شروع کردیا ہے اور اس سے تقریباً 15لاکھ متاثرہ خاندانوں کے 90لاکھ افراد مستفید ہوں گے۔ متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن کیلئے این ڈی ایم اے کو وزیراعظم کی ہدایت پر 5ارب روپے فراہم کردیئے گئے ہیں۔ بلوچستان کے علاقہ جھل مگسی میں متاثرہ افراد میں 25ہزار روپے نقد امداد کی فراہمی شروع کردی گئی ہے، سیلاب سے جاں بحق افراد کے لواحقین کو 10لاکھ روپے معاوضہ فراہم کیا جارہا ہے، اب تک 493 افراد کے لواحقین میں فی کس 10لاکھ روپے امدادی چیک جاری کئے جاچکے ہیں، وفاقی حکومت کی طرف سے متاثرین کے گھروں کے سروے کا عمل بھی جاری ہے جس کی تکمیل پر متاثرہ گھروں کی تعمیر کیلئے فی گھر 5لاکھ روپے امدادی چیک دیئے جائیں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں سیلابی صورتحال کے پیش نظر قومی ایمرجنسی نافذ کردی ہے اور وفاقی کابینہ کی ایک ماہ کی تنخواہ وزیراعظم ریلیف فنڈ میں جمع کی جائے گی، اسی طرح فوج کے افسران بھی ایک تنخواہ ریلیف فنڈ میں جمع کریں گے اور وزیراعظم نے ریلیف فنڈ قائم کیا ہے جو کہ ملک کے کسی بھی بینک میں امداد اور عطیات جمع کئے جاسکتے ہیں این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ نقصان بلوچستان میں ہوا ھے جہاں 202 اموات ہوئیں، سندھ میں بھی لاڑکانہ، سکھر، خیرپور، دادو، نواب شاہ، اور نوشہرو فیروز میں بھی سیلابی صورت حال کا سامنا ھے، زیریں سندھ کے حیدر آباد اور میرپور خاص کے اضلاع بدین، ٹھٹھہ، سجوالہ، سانگھڑ اور عمر کوٹ میں بھی صورت حال مخدوش ھے، ان اضلاع میں بھی کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں کچے مکانات گر گئے، بدین ضلاع میں 72 یونین کونسلز میں سے 55 یونین کونسلز مکمل زیر آب آگئیں بدین ضلاع مکمل طور پر زیر آب ھے ۔ پہلے بارشوں میں لوگ دیہاتوں سے باہر نکل کر سڑک پر آکر بیٹھ جاتے تھے لیکن اس بار صورتحال یکسر مختلف ہوگئی ھے کیونکہ سڑکیں بھی زیر آب آگئی ہیں، بالائی اضلاع میں تاحال بارشیں جاری ہیں اور خدشہ ھے کہ ان سیم نالوں میں شگاف پڑ سکتے ہیں، اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ھے۔