جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے تب سے کبھی جمہوریت کبھی قرض اتارو ملک سنوارو، کبھی تبدیلی، انقلاب، سودی نظام سے پاک نظام، ووٹ کو عزت دو، غلامی نا منظور، حقیقی آزادی، صدارتی نظام تو کبھی پاکستان کھپے کے نعرے سنائی دیتا ہے۔ 9 اپریل 2022 جب سے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہے تب سے عمران خان نے اپنا بیانیہ بنا رکھا ہے کہ انھیں امریکا میں مقیم سفیر کا مراسلہ ملا جس کے تحت انکی حکومت کو ہٹایا گیا۔ ملک بھر میں غلامی نا منظور کا بیانیہ لے کر تحریک انصاف نے جلسے کیے جس میں عوامی رد عمل قابل دید تھا۔ پھر 25 مئی کو پشاور سے عمران خان نے اسلام آباد کا رخ کیا۔ قائد انقلاب خان صاحب نے اسلام آباد میں ہی 10 منٹ کا سفر 4 گھنٹوں میں طے کیا اور اسلام آباد ڈی چوک پہنچ کر اعلان کیا کہ لانگ مارچ ختم، دھرنا بھی موخر۔ اگر مطالبات نا مانے گئے تو اگلے ہفتے میں پھر اسلام آباد آ رہا ہوں۔ پھر قائد انقلاب بنی گالا سے پشاور روانہ ہو گئے۔ 75 ویں یوم پاکستان پر اس غلامی جو شائد 1947 سے اب تک پاکستان کو وارثت میں ملی اسکی بات کرنا انتہائی اہم ہے۔ عمران خان صاحب جو امریکا کی غلامی کی بات کرتے ہیں پہلے اس غلامی سے نجات کی کوشش کیوں نہیں کرتے جو ملک پاکستان پر 75 سال سے نافذ ہے۔ 14 اگست 1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح رح، قائدین و کارکنان تحریک آزادی کی کاوشوں اور لاکھوں پاکستانیوں کی قربانیوں سے پاکستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا۔ ہماری بد قسمتی کہ پاکستان بننے سے آج تک چند خاندان ہمارے اوپر قابض ہیں اور پلٹ پلٹ کر وہی خاندان اسمبلی کا رخ کرتے ہیں۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ پاکستانی اسمبلیوں میں 53% سے زائد موروثیت ہے جبکہ بھارت میں 28 فیصد اور 1996 کے انتخابات میں امریکی کانگرس میں 6 فیصد موروثیت تھی۔ گویا پاکستان موروثی سیاست کا گڑھ بن چکا ہے۔
پاکستانی نظام سیاست میں موروثیت اس حد تک برقرار ہے کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہ بھی اپنی جماعت کے لیڈرز کی بجاے اپنے خاندانوں اور اولادوں کو پارٹی سربراہی سونپتے ہیں۔ لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے شاہ نواز بھٹو انگریز دور میں بمبی صوبہ کی اسمبلی کے رکن رہے بعد ازاں 1931 میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی اور گورنر جنرل اسکندر مرزا و سابق صدر و جنرل ایوب خان کے قریبی رفیق رہے۔ ان کے صاحبزادے ذوالفقار علی بھٹو وزیرخارجہ، پھر بطور صدر و وزیراعظم رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد انکی جماعت بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاس چلی گئی اور آپ دو مرتبہ وزیراعظم رہیں۔ محترمہ کی شہادت کے بعد آصف زرداری صدر پاکستان و پارٹی کے شریک چیئرمین منتخب ہوے۔ آج انہی کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری پارٹی چیئرمین و وفاقی وزیر خارجہ منتخب ہوے۔ میاں محمد شریف کے بعد نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز پاکستان مسلم لیگ ن میں پارٹی پر براجمان ہیں اور وزارت عظمی و وزارت اعلی اکثر انکے گرد گھومتی ہے۔ خواجہ محمد رفیق کے بعد خواجہ سعد رفیق و خواجہ سلمان رفیق، خواجہ محمد صفدر کے بعد خواجہ محمد آصف، غلام دستگیر کے بعد خرم دستگیر، خاقان عباسی کے بعد شاہد خاقان عباسی، سابق گورنر پنجاب و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ محمد سجاد حسین قریشی کے بعد شاہ محمود قریشی اور اب انکے بیٹے زین حسین قریشی و صاحبزادی مہر بانو قریشی، سابق وزیراعلی نصر اللہ خان خٹک کے بعد انکے کزن پرویز خٹک وزیراعلی منتخب ہوے۔ پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خان خٹک و بھتیجی ساجدہ بیگم رکن خیبرپختونخواہ اسمبلی ہیں۔ سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل تحریک انصاف جبکہ دوسرے بھائی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل ن لیگ میں نظر آئیں گے۔ سابق گورنر سندھ محمد زبیر ن لیگ تو دوسرے بھائی وفاقی وزیر اسد عمر تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ گوہر ایوب خان کے بعد عمر ایوب گوہر، اسفند یار ولی کے بعد ایمل ولی خان، مولانا فضل الرحمن کے بعد مولانا اسد محمود، چوہدری ظہور الہی کے بعد چوہدری شجاعت حسین پھر چوہدری سالک حسین و چوہدری شافع حسین، اسی طرح چوہدری منظور الہی کے بیٹے پرویز الہی انکے بعد مونس الہی سیاسی وراثت سنبہالنے کو بے تاب نظر آتے ہیں۔
یہ سارا نقشہ کھینچنے کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ ایک بھائی ایک جماعت تو دوسرا بھائی دوسری جماعت میں نظر آتا ہے۔ موروثی سیاست غالب نظر آتی ہے سات دہائیاں گزرنے کے بعد آج بھی ہم انہی خاندانوں کے غلام ہیں۔ عمران خان جس آزادی کی بات کرتے ہیں پہلے اپنے ارد گرد نظر دوڑایں کیا وہی چور، وہی خانوادے آج انکی جماعت میں اہم سیٹوں پر براجمان نہیں؟ جو کل کسی جماعت میں تھے مشکل وقت میں اپنی جماعتیں چھوڑیں، آج کیسے وہ عمران خان یا تحریک انصاف سے مخلص ہو سکتے ہیں؟۔ تحریک انصاف کو اپنی منزل صرف الیکشن اور چند خاندانوں سے ہٹا کر، فقط تبدیلی اور حقیقی تبدیلی کی طرف لانا ہوگی بصورت دیگر میں ملک میں کوئی خاص تبدیلی نہیں دیکھ رہا۔ آئندہ تین ہفتے ملکی سیاست میں نیا رخ اختیار کرنے والا ہے۔