کچھ دن سے جہاں اکثر لوگ صرف سیلاب زدگان کی امداد میں مصروف ہیں جن میں پاکستان فوج سر فہرست ہے، وہیں زیادہ تر لوگ میری طرح صرف سوشل میڈیا پر رنگ برنگے انداز میں اظہار ہمدردی اور افسوس کر رہے ہیں۔ایسے میں افسوس تو فطرتی طور پر ہر زندہ روح کو ہونا ہے مگر اسکے اظہار میں ہماری سوچ اور نظریات کا دخل ہماری ذات کے بہت سے پوشیدہ پہلو عیاں کر دیتا ہے۔ پچھلے چند روز میں تباہ کن صورت حال اور اس پر ہوتے تبصروں میں چھپے عجیب و غریب معانی اور توجیہات آپ کو تحفے میں ایسا مستقل درد دے جائینگی کہ سیلاب کے چلے جانے کے زمانے بعد تک نہ تو درد جاتا دکھائی دے، نہ اسکی وجہ…سوشل میڈیا پر جہاں سیاست سے دور رہ کر صرف سیلاب زدگان کی مدد کی تلقین کا جیسے ایک ٹرینڈ ہی چل پڑا ہو وہیں کونسی بات سیاست ہے اور کیا کہیے کے ہمدردی کے زمرے میں آئے گا، اس بات کا تعین اور تخصیص کرنا ایمرجنسی بنیادوں پر ہر فرد کی اپنی عقلی صلاحیت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پاکستانیوں نے سیلاب سے متاثر آسمان تلے راتیں بسر کرنے والوں کی سپورٹ میں جتنے الفاظ ادا کیے کاش اسی طرح عملی طور پر بھی ہم مدد کو لپکیں۔ اتنے نہ سہی مگر دوسری طرف آج بھی ایک کثیر تعداد امدادی کاموں میں مشغول ہے اور بہت تھوڑے لیکن سنجیدہ سوشل میڈیا صارفین انکی مدد کا باعث بھی ہیں۔ مگر میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق سوشل میڈیا آجکل آگاہی سے زیادہ ہماری ذہنی پستی کی ایک کھلی نمائش بن کر سامنے آیا ہے۔ جہاں فوج کی طرف سے ہمیشہ کی طرح بڑھ چڑھ کر کیے جانے والے امدادی کاموں کی تعریف کرنے والے کو "سیاسی" کے لقب سے نوازا جا رہا ہے وہیں اگر وہی فرد فوج پر ہر کام اپنے ہاتھ میں رکھنے اور آفات سے نمٹنے کے لیے اپنے علاوہ کوئی مضبوط ادارے نہ بننے دینے کی وجہ مان کر تنقید کرے تو اسکو بہت سنجیدہ و رنجیدہ اور غیر سیاسی مان کر گلے لگا لیا جاتا ہے اور کوئی اپنے آپ سے یہ سوال نہیں کرتا کیا ہم حقیقت پرست ہیں جسکے ہم دعوہدار ہیں یا پھر ہمیں صرف حقیقت کو وہ حصّہ سننا ہے جس سے ہمیں تقویت ملے اور ہمارے دل میں پلتی نفرت کی ٹہنیوں کے پتے ہرے رہیں-
ایسی بیشتر مثالیں جنکا میں نے ازخود مشاہدہ کیا اور شاید سب نے کیا ہو، ان میں سے ایک قابل ذکر اور قابل افسوس تجربَہ یہ رہا کے جہاں جہاں جس نے حکومت وقت پر انکی نا اہلی، انکی بے رخی پر تنقید کی، یہاں تک کے اگر اْسی شخص نے بلعموم تمام سیاستدانوں پر انکی خرید و فروخت کے لیے ذرائع ہونے مگر بے حال متاثرہ لوگوں سیان لیڈرز کی بے خبری اور بے حسی کی نشان دیہی کی تو اسے "بے شرم" اور " آج تو سیاست نہ کرو "جیسے القابات سے نوازا گیا۔ ستم ضریفی یہ کے جب وہ شخص ابھی اپنے عمل پے شرمندہ ہوا ہی تھا کے ہم نے اسکی ایک اور پوسٹ دیکھ لی جس میں اس نے بالکل وہی حرکت کی مگر ان سب سیاسی جماعتوں سے الگ کسی ایک جماعت اور کسی ایک صوبے کی حکومت کے خلاف۔ کچھ لمحات کے لیے تو ایسے لگا جیسے وہی بھائی جان اب کی بار اولپمیس 2024 میں لگ بھگ دس پلاٹینم تمغے جیت چکے۔ شاباشیوں کی قطار لگ گئی اور سب بھائیوں نے اسے "واقعی دکھی" ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی عنایت کیا۔ اور وجہ صرف یہ تھی کی اس دفع کا سچ عمران خان کے خلاف تھا۔
ہر وہ فرد جو دونوں طرف کا یعنی کے پورا سچ کھوجنے اور اسکو کہہ دینے کا ظرف رکھتا ہو وہ یقینی طور پر پچھلے چند روز میں یا ماضی میں ایسے حالات میں ایسے مشاہدات سے گزرا ہوگا۔ اب سوچئے کہ سیلاب میں ڈوبی قوم کی بے بسی اور لاچاری پہ ماتم کیا جائے یا پھر ایسے حالات میں بھی بغض و کینہ سے بھرے نفرت زدہ ذہنوں میں بستی منافقانہ سوچ پر۔ بقول ایک عزیز دوست کے جسکی کی بات مجھے یک لخت یاد آئیْ جس نے میری اس دعا کی اپیل کے "اللّہ ہمیں معاف کرے یہ عذاب الہی ہے" کے جواب میں بہت کڑوا سچ کہا تھا، " ہم اس سے کہیں زیادہ کے حقدار ہیں"۔
بہرحال اس تحریر کا مقصد ہمارے اندر موجود دوہرے معیار کی نشان دہی کرنا ہے، ہماری پستی کی سب سے بڑی وجہ ہمارے اقدار کی یہ خستہ حالی ہے۔ بجائیْ حکومت، فوج یا سیاسی لیڈرز پر تنقید کے ہمیں سب سے پہلے یہ قبول کرنا ہوگا کہ ان تمام آفات کی وجہ ہمارے اندر بستی نفرت اور انفرادیت اور آدھا سچ بولنے اور سننے کی عادت اور ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دینے کی فطرت ہے۔ اگر ہمارے اقدار بہتر ہوں تو نہ سیاسی لیڈرز نہ فوج نہ کوئی حکومت ہمارے مفادات کے خلاف جا سکتی ہے۔ اگر ہم ایک متفق، با خبر اور با شعور قوم ہوتے تو آج ہم عوام اس ملک کے اصل حاکم ہوتے اور یہاں اتنے ڈیمز ہوتے کے حالیہ تباہی سے بچ جاتے اور نہ جانے کس کس سمت میں ترقی کی منازل تہ کر رہے ہوتے۔ان سب باتوں سے میرا مقصد ہر گز مایوسی نہیں، جو گزرگیا وہ تقدیر ہے اور غیر متغیر مگر مستقبل روشن اور سامنے ہے۔ ہم اپنے ملک کی سلامتی و ترقی کو اپنا اولین مقصد بنا کر، اپنی زندگی کے سیاسی، معاشی و معاشرتی معاملات کو دین کے تابع لا کر اور قرآن کی قیامت تک موجزہ اور قابل اطلاق رہنے والی تعلیمات کی روشنی میں اپنی محنت اور کوشش جاری رکھیں۔ انشااللہ کامیابیاں ہمارا مقدّر ہونگی۔ دعاہے اللّہ رب العزت تمام متاثرین پر اپنی خاص رحمتوں کا نزول فرمائے اور ہم سبکو بڑھ چڑھ کر سیلاب زدگان کی صحیح معنوں میں مدد کی توفیق عطاء فرمائے۔