ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ
پُورا ملک کرب اورعذاب میں مبتلا ہے۔ملک بھر میں بد ترین ری ایکشن آرہا ہے۔ احتجاج کی صورتحال شدید ترین ہے۔ ملک میں انارکی کی صورتحال ہے۔ یُوں لگتا ہے حکومت عوام کے غیض و غضب کے آگے ڈھے جائے گی۔ لوگ اپنی مو ٹر سائیکل، زیور، کمیٹی، قرض ادھارسے بِل ادا کررہے ہیں۔ درجن بھر افرادکی خودکشیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ پاکستانی عوام گزشتہ پانچ سال سے دو حکومتوں کی نا اہلیاں اور کرپشن کی سزا بھگت رہی ہے۔ پاکستان میں سول نافرانی کا آغاز ہو چکا ہے۔ عوام مشتعل ہیں۔ کیا امیر اور کیا غریب سب حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ پوری دنیا میں بجلی اتنی مہنگی نہیں جتنی کہ پاکستان میںمہنگی ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں بجلی سونے سے تیار کی جاتی ہے۔ہر سال یہ بکواس سُن سُن کر کان پک گئے ہیں کہ جی انڈیا نے پانی چھوڑ دیا۔ پچھتر سالوں سے انڈیا ہر سال پانی چھوڑ دیتا ہے تو کمبختوں تم وہاں ڈیم کیوں نہیں بنالیتے۔ یہ پانی ذخیرہ کر کے بجلی کیوں نہیںبنالیتے۔ آئی ایم ایف نے کروڑوں ڈالر کا قرض دیا۔ سعودی عرب ، چین، امریکہ، قطر، امارات سے کروڑوںکی امدادیں آئیں۔ سب سے زیادہ چین اور سعودی عرب نے پاکستانی خزانوں کے منہ بھرے۔روس چین ایران سعودی عرب اوریورپی یونین نے سستے ترین پیکج دئیے۔ روس سے تیل چالیس روپے لٹر کے حساب سے ملا جسے تین سوروپے تک کا بیچا جا رہا ہے۔ ایک زرعی ملک میںلوگ آٹے کے لیے سینکڑوں کے حساب سے موت کے منہ میں گئے ہیں۔ جس ملک میں گنے شلجم چقندر کی پیداوار دنیا میں تیسرے نمبر پرہے۔ اُس میں چینی چاندی کے بھائو فروخت ہو رہی ہے۔ پاکستان میں چینی پچاس روپے کلو ملنی چاہیے لیکن ظلم کی حد ہے کہ 160سے200 کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ہر چیز پر ٹیکس ہے اور یہ سارے ناجائز ناروا ٹیکس ہیں۔ انکا کو ئی جواز نہیں ۔ موٹر ویز اور رنگ روڈزپر اس قدر ٹیکس لگا دئیے گئے ہیںکہ انسان گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔ رنگ روڈزاورموٹر ویز پر ایسی کیا آرائش و زیبائش کی گئی ہے کہ کل سے پھر ٹیکسوں میں اضافہ کر کے زندگیاں اجیرن کر دی گئی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ پانی پر بھی ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے مہنگائی مسلط کردی ہے۔سبزیاں دا لیں گوشت چکن جتنی مہنگی کر دی ہیں۔ ہرا دھنیا، ہری مرچیں پودینہ تک پلّے سے خریدنا پڑتا ہے اور یہ کوئی پانچ دس روپے میں نہیںملتا۔ پچاس سو میں ملتا ہے۔ پالک ساگ شلجم آلو جیسی سستی سبزیاںبھی تین چار سو روپے سے کم نہیں ملتیں۔ ایک زرعی ملک میں یہ چیزیں بھی مشکل سے نصیب ہو تی ہیں۔ پاکستانی ایک ایک روٹی کے محتاج ہو گئے ہیں۔ پوری قوم کو ٹیکسوں اور بلوں پر لگاکر حکومتوںنے کرپشن کے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی حکومتوں نے جو لوٹ مار کی۔ اصولاً تو ان سب کو پاکستان سے نکال دینا چا ہیے جنھوں نے عوام کا خون چوس لیا ہے۔ کیا عجیب غضب کی کہانی ہے کہ جنھوں نے یہ مہنگائی عروج پر پہنچائی وہی آج اِس کی مزمت کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نوکریوں، تنخواہوں، پینشن، ٹیکسوں، بِلوں، مہنگائی کے پیچھے چڑیلوں کی طرح پڑ گئی ہے۔ آئی ایم ایف اندھی ہے۔ اُسے اشرافیہ کی عیاشیاں اور کرپشن نظر نہیں آتی۔ آئی ایم ایف پھا پھا کٹنی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ حکمران سادہ زندگی اختیار کریں۔ اپنے بِل خو د اداکریں۔ ایوان صدر، وزیر اعظم ہائوس، چیف منسٹر ہائوسز اور گورنر ہائوسز خالی کر کے دو کمروںکے فلیٹوں میں رہیں۔گاڑیاں پروٹوکول اور عیاشیاں بند کریں۔ جہازوں پر سیر سپاٹے نہ کریں۔ آئی ایم ایف سے معائدے کے وقت مقروض اور مفلوک الحال ملک پاکستان کی کا بینہ 87 افراد پر مشتمل تھی۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے لوگوں خوشنودی حا صل کرنے کے لیے ساڑھے چھ سو ایوارڈزکی بندر بانٹ کی گئی۔ سب جماعتوںکی چا پلوسی اور خوشنودی کے لیے ایک ہزار سے زائد نالائق سفارشی لوگوں کو وزیر مشیر اور مختلف اداروں میں سربراہ لگائے گئے۔ یہ سب نہیں جانتے کہ اقتدار کے لیے جو ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ہیں۔ اللہ کے فضل سے ان میں سے کسی کو اقتدار نصیب نہیں ہونا۔ اب عوام غیض و غضب کے ساتھ اٹھ کھڑی ہو ئی ہے۔ چالیس سال سے ملک میں لوٹ مار جاری ہے لہذا اب عوام ان لٹیروں میں سے کسی کو نہیں آنے دے گی۔ ہو سکے تو یہ بات لکھ رکھیں کہ سابقہ حکمرانوں میں سے کسی کو اقتدار نہیںملے گا۔ پورا ملک بجلی کے بِلوں اور مہنگائی سے عذاب میں آیا ہو اہے ۔ لوگ فا قوں پر اُتر آئے ہیں اور ملک میں بجلی کے بِل جلائے جا رہے ہیں۔ ستمبر میں اگر بجلی کے بِل اور زیادہ آئے تو عوام کے مقتدر حلقوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلائیں گے اور بجلی کے بل جلا کر پھینک دیں گے۔ اگر کسی اہلکار نے میٹر کاٹنے کی کوشش کی تو تما م محلے کے لوگ مل کر انھیں زد و کوب کریں گے۔ شرمناک بات ہے کہ دس بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ اور وولٹیج مسلسل کم آتی ہے جس سے اُنکے فریج، اے سی، واشنگ مشین اور دیگر الیکٹرک آلات جل جاتے ہیں لیکن پھر بھی بجلی کے بِل اسطرح آرہے ہیں جیسے بجلی کھائی جا رہی ہے۔ سوال یہ کہ دو ہزار کے بلِ میں 48فیصد ٹیکس کس حساب میں دیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ دنیا میں کسی بھی ملک میں بجلی کے استعمال پر ٹیکس نہیں لگتا لیکن پاکستان کی چور حکومتیں بجلی پر طرح طرح کاٹیکس لگا کر کھا رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے پچاس فیصد ٹیکس لگا یا اور پی ڈی ایم نے اسی فیصد ٹیکس لگاکر عوام کومار ڈالا۔ نگران حکومت نے ابھی تک اسکا کوئی حل نہیں نکالا ہے جبکہ عوام میںنفرت غصہ اشتعال بڑھ چکا ہے۔ اگر نگران حکومت نے پرانی قیمتیں بحال نہیںکیں تو عوام نگران حکومت کو چلتا کریگی۔ اس احتجاج میں جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی نے شرکت کا عندیہ دیا ہے۔ کوئی جماعت ساتھ دے یا نہ دے عوام اب بجلی کے بل کم نہ کرنے پر حکومت کا دھڑن تختہ کر کے ہی دم لے گی۔ کیونکہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔