حاتم طائی کی پٹائی

Aug 29, 2023

غلام شبیر عاصم

کالم:لفظوں کا پیرہن تحریر:غلام شبیر عاصم 

 پروفیسر شجر عباسی کا پہلا شعری مجموعہ آچکا ہے،اور شہر کے ایک قدیمی کتب خانہ میں اس مجموعہ کی دو عدد کاپیاں کتابوں کے اس"شہر خاموشاں"میں وارد ہوچکی ہیں۔یہ شہر پروفیسر صاحب کے قصبہ سے تقریبا?? 44 کلومیٹر دور ہے۔کتب خانہ کے مالک بخت یار خان علمی و ادبی کتابیں شاعروں،ادیبوں اور پبلشرز سے درجنوں کے حساب کمیشن پر خرید کر مختلف اداروں اور لائبریریوں کو فراہم کرتے ہیں۔اور یہ کام وہ گزشتہ پینتیس سالوں سے کررہے ہیں،آج کل مہنگائی کی وجہ سے ان کا یہ کام کافی ٹھنڈا پڑ گیا ہے،قارئین کی کتاب پڑھنے کی رہی سہی بھوک کی جگہ بھی اب بھوک مٹانے والی اشیائ￿  سے جْڑی ہوئی طلب نے لے لی ہے۔کوئی اب تین چار سو کی کتاب خریدے کہ گھی یا آٹا حاصل کرنے کی سعی کرے۔بخت یار خان نے پروفیسر شجر عباسی سے کہا ہے کہ آپ کی کتاب کا نام لسٹ میں ڈال دیا ہے،آپ رابطہ میں رہنا کہیں سے آرڈر ملتے ہی آپ سے رابطہ کیا جائے گا،اور کچھ کتابیں کمیشن پر آپ سے خرید لی جائیں گی۔ادھر پروفیسر شجر عباسی اپنی اہلیہ کو اپنے تئیں بہت بڑی خوشخبری سنا چکے ہیں کہ ممکن ہے بیس تیس کتابیں فروخت ہوجائیں گی۔کافی ساری تو مفت میں لوگوں کو بھیج دی گئی ہیں،کچھ جو رہ گئی ہیں انہیں بھی شوقِ پذیرائی کے تیزگام دْلدل پر لاد کر دْلدْل کو مہمیز کردوں گا۔اور بہت جلد آپ کی الماری خالی ہوجائے گی اور پھر آپ ادھر اپنا سامان وغیرہ رکھ لینا ابھی برداشت کرو۔پروفیسر صاحب نے بخت یار خان کو دو تین دفعہ فون کیا اور اس نے کہا کہ پروفیسر صاحب ابھی آپ کی کتاب کسی نے پسند نہیں کی ویسے بھی پنجابی شاعری کی کوئی کتاب تو خال خال ہی فروخت ہوتی ہے۔بخت یار خان کی یہ بات سن کر پروفیسر شجر عباسی دل شکستہ سے ہوگئے۔دو تین  مہینوں کے بعد پروفیسر صاحب نے کتب خانہ پر فون کیا اور کتابوں کے بارے پوچھا تو پتہ چلا کہ ایک عدد کتاب فروخت ہوچکی ہے۔یہ سن کر پروفیسر صاحب کو ایسے لگا جیسے مچھلی کے شکار کی خاطر پانی میں کانٹا پھینک کر گھنٹوں سے کنارے پر بیٹھے ہوئے شکاری کے کانٹے میں مچھلی پھنس گئی ہو اور کانٹے(کْنڈی) کے غوطے سے پانی کی ننھی سی لہریں خوشی بن کر شکاری کے چہرے پر سے ظاہر ہونے لگی ہوں۔گویا پروفیسر صاحب کے کانٹا کو مچھلی لگ چکی تھی،اور ان کی پیشانی پر خوشی کی لہریں نمایاں تھیں۔پروفیسر شجر نے ارادہ کرلیا کہ اب وہ جس روز بھی شہر گئیے تو خان صاحب کے پاس ضرور جائیں گے۔چند ہی دنوں کے بعد پروفیسر صاحب کو کسی کام سے شہر جانا پڑ گیا۔خان صاحب کو فون کرکے جناب شجر نے دکان پر جا شاخیں بکھیریں۔بہت مختصر علمی و ادبی اور کتابوں کی خرید و فروخت کے موضوع پر گفتگو جاری رہ سکی،خان صاحب آج موڈ سے ایسے نہیں لگ رہے تھے کہ ان کے ساتھ دیر تک گپ شپ کی جا سکے گی۔ حالانکہ خان صاحب فارغ تنہا بیٹھے ہوئے تھے۔خان صاحب نے ایک عدد فروخت ہونے والی کتاب کی قیمت پروفیسر صاحب کو دینا چاہی،پروفیسر صاحب نے اپنے بڑیپن اور صلہ رحمی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ارے خان صاحب رہنے دیجئیے  آپ ہماری طرف سے  چائے پی لینا۔پروفیسر صاحب کا یہ کہنا تھا کہ بخت یار خان تپ گئے،آگ بگولا ہوگئے،لمحہ بھر میں خان صاحب کہاں سے کہاں پہنچ گئے،جو منہ میں آیا کہتے گئے برستے گئے۔پروفیسر صاحب تھے کہ غیض وغضب کی اس بے موسمی اور غیر متوقع موسلا دھار بارش میں خفت سے پانی پانی ہو کر کانپنے لگے۔اسی اثنائ￿  میں خان صاحب کا برخوردار بھی آ ٹپکا۔اس نے چند سیکنڈز کے لئے حالات کو بھانپا اور یہ یقین کر لیا کہ اس گرما گرمی میں  قصور پروفیسر صاحب ہی کا ہوسکتا ہے۔بیٹے نے بھی بغیر کچھ سوچے سمجھے الماری کے خانوں سے غصہ سے کتاب نکالی اور پروفیسر صاحب کو کتاب سے پیٹنا شروع کردیا۔پروفیسر صاحب اپنا قصور اور لڑائی کی وجہ دریافت کرتے رہ گئے۔شور سن کر کچھ دفتروں اور دکانوں والے لوگ بھی اکٹھے ہوگئے۔اور پروفیسر صاحب کی خلاصی کرانے کے لئے غصہ و طیش کے اس دریا میں کپڑوں سمیت کود گئے۔اب خان صاحب کی گرج دار آواز تھی یا پھر لوگوں کی یہ آوازیں تھیں،بھئی ہوا کیا ہے،کیوں ایسا کررہے ہو،خان صاحب بات کیا ہے،بھئی ہمیں بھی کچھ بتاو۔خان صاحب نے غصہ میں لرزتے ہوئے ان سب سوالوں کے جواب میں یہی کہا آیا ہے بڑی سخاوت کرنے والا،ہم اس کے ٹکڑوں پر پلتے ہیں کیا؟،ہم روزانہ اس کے پلے سے چائے پیتے ہیں کیا؟۔ہم پہلے ہی پریشان ہیں۔مہنگائی نے ہوش اڑا دئیے ہیں،ہم تو اپنے آپ سے تنگ ہیں۔اپنے آپ سے دست و گریباں ہونے کو آگئے ہیں۔بجلی کے بلوں نے پریشان کیا ہوا ہے۔نہ جانے کہاں کہاں سے آجاتے ہیں لوگ منہ اٹھا کر،موڈ ہی خراب کردیا ہے۔خان صاحب نے پروفیسر صاحب کی کتاب پکڑی اور ان کے جبڑے پر دے ماری اور کہا چل بھاگ یہاں سے آیا ہے حاتم طائی کہیں کا۔پروفیسر صاحب مظلومیت و بے بسی سی حالت میں دکان  سے یہ کہتے ہوئے نکلے کہ،عجیب زمانہ ہے،میں نے کیا کہہ دیا ہے،گھر کا غصہ مجھ پر نکال رہے ہیں،مہنگائی میں نے تو نہیں کی،دکانوں کے کرائے میں نے تو نہیں بڑھائے،بجلی کے نرخ میں نے تو نہیں بڑھائے،عجیب زمانہ آگیا ہے۔غلطی کسی کی،سزا کسی کو حیرت ہے۔پروفیسر صاحب یہ کہتے جبڑے کو م?لتے ہوئے دکان سے باہر نکل گئے۔اوکے

مزیدخبریں