شاہد احمد لغاری
پاکستان میں تین کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ افراد 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق 1,700 افراد موت کا شکار ہوئے جبکہ تقریباً 80 لاکھ بے گھر ہوئے۔ انتہائی شدت کے اس سیلاب سے پاکستان کو موسمیاتی تغیر کے باعث لاحق سنگین خطرات کی نشان دہی بھی ہوئی ۔ پاکستان عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس تباہی سے پہلے آنے والی معاشی آزمائشوں کا بھی مقابلہ کر رہا ہے۔مختلف اداروں کی جانب سے تعاون اور امداد سے تباہ کُن سیلاب سے بحالی کے اہم سنگِ میل کا حصول ممکن توہوا مگر اب بھی کہیں کہیں امداد کی سخت ضرورت ہے۔اس بحران کے دوران ایسا بھی ہوا کہ ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب تھا۔ جمع شدہ پانی سے ملیریا، اسہال، جِلدی امراض اور ڈینگی جیسی بیماریوں کے شکار ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔آنے والے وقت میں وطن عزیز کو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی ممکنہ تباہی سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری سے ہر ممکن تعاون کی فراہمی بہت اہم ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ گزشتہ برس ماہِ ستمبر میں آنے والے تباہ کن سیلاب کو ایک سال پورا ہونے کے باوجود انسانی مسائل میں کوئی خاص کمی نہیں ہوئی۔ اب بھی لگ بھگ 40 لاکھ بچے صاف پانی، مناسب خوراک اور طبی سہولیات سے محروم ہیں۔یونیسیف پاکستان کے مطابق گزشتہ برس سیلاب کے بعد ہنگامی صورتحال کا نفاذ کیا گیا تھالیکن اب بھی لاکھوں بچے مدد چاہتے ہیں جو بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ جبکہ بحالی کے امور میں بھی وسائل اور رقم کی شدید قلت ہے۔یونیسیف کے مطابق متاثرہ علاقوں میں جب دوبارہ مون سون بارشیں ہوئیں تو ان سے ملک بھر میں 87 بچے ہلاک ہوئے ہیں۔ اسی طرح 80 لاکھ افراد شدید متاثرہیں جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔ ان میں 15 لاکھ بچوں کی حالت بہت ہی ناگفتہ بہ ہے جنہیں فوری طور پر مناسب خوراک کی ضرورت ہے جو اب بھی متاثرہ ضلعوں میں موجود ہیں۔اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے نے فنڈزکی فوری درخواست بھی کی ہے ۔
گزشتہ برس سیلاب سے متاثرہ بچوں کے لیے بہت ہولناک گزرا ہے کیونکہ وہ ہرطرح کے خطرات کے شکار ہیں، ان کے پیارے بچھڑ چکے ہیں، ان کے اسکول تباہ ہوگئے ہیں اور گھر بہہ چکے ہیں۔ اب مون سون دوبارہ لوٹ آیا ہے اور موسمی شدت کا بحران سر پر ہے۔ گویا لگتا ہے کہ ان بچوں کے مسائل کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ستمبر 2022 کے سیلاب میں ایک تہائی ملک پانی میں ڈوب گیا تھا۔ اس سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔ اس سانحے میں 30 ہزار اسکول، 2000 طبی مراکز اور 4300 آبپاشی کے منصوبے برباد ہوئے۔ اب بھی ایک تہائی بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
عالمی برادری ان متاثرہ بچوں کے لئے ہلال احمر پاکستان کا ساتھ دے تاکہ ان کا مستقبل تاریک نہ رہے۔ یونیسیف کی جانب سے جاری اعلامیہ پر توجہ دی جائے ۔انسانی خدمت کے صف اول کے ادارہ کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہلال احمر پاکستان نے سیلاب متاثرہ 27 لاکھ گھرانوں کی مدد کر کے تاریخ رقم کی۔عالمی سطح پر ہلال احمر پاکستان کو زبردست پزیرائی ملی ۔ملکی سطح پر ہر مکتبہ فکر اور حکومت نے بھی سراہا۔سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ، متاثرہ اضلاع میں ماڈل شیلٹر ہاوس کی تعمیر کی جائے گی جس کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے،پہلا ماڈل شیلٹر ہاوس ایک بیوہ کو فراہم کر دیا گیا ہے۔کل پانچ ہزار شیلٹرہاوس تعمیر کئے جائیں گے۔ ہلال احمر ریکوری فیز میں داخل ہوا تو سمندری طوفان کی پیشگوئی سے مذید الرٹ ہونا پڑا ۔پیشگی اقدامات کے لئے ٹیمیں ساحلی علاقوں میں روانہ کیں۔جائزہ ٹیموں نے کمال مہارت سے کام کیا۔پاک فوج کے ساتھ مل کر لوگوں کا ا نخلا کیا۔اس طرح بروقت اقدامات اور پیشگی تیاری نے ہمیں بچا لیا۔ہمیں زیادہ نقصان نہیں ہوا۔
’’بیپر جوائے‘‘ رواں برس بحیرہ عرب میں بننے والا دوسرا طوفان تھا۔ اِس طوفان کا نام بنگلہ دیش کی جانب سے تجویز کیا گیا۔ اِس کے معنی بھی ’’آفت‘‘ کے ہیں۔ واضح رہے کہ ایسے طوفانوں کے نام ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کی جانب سے جاری حکم نامہ کے تحت رکھے جاتے ہیں۔
’’بیپرجوائے‘‘ کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کیلئے حکومت سمیت تمام متعلقہ اداروں نے پیشگی اقدامات کرکے نئی تاریخ رقم کی ۔ کراچی میں بے تحاشہ بارشوں کی پیشگوئی بھی سچ ثابت ہوتی ہے۔ 70 سے زائد مخدوش عمارتوں سے لوگوں کا انخلا بھی مد نظر رکھا گیا۔ ضلع سجاول ،بدین اور ٹھٹھہ کے علاقوں سے ہزار لوگوں کا انخلا بھی تجویز کیا گیا تاکہ ممکنہ خطرات سے محفوظ رہا جاسکے۔ٹھٹھہ، سجاول، بدین ،تھرپارکر، میرپور خاص اور عمرکوٹ میں تیز ہواؤں اور شدید بارشوں کی ممکنہ اطلاعات تھیں اور پھر خوب آسمان برسا۔ تیز ہواؤں سے سولر پینلز ، کچی عمارتوں، سمندری کشتیوں کونقصان پہنچا، انخلاء کے باعث ہزاروں گھرانے متاثر ضرورہوئے مگر محفوظ رہے، اِن خاندانوں کو مختلف سکولوں کی عمارتوں میں ٹھہرایا گیا۔یہ طوفان پاکستان کی تاریخ کا دوسرا بدترین طوفان تھا مگر خوش قسمتی سے ہلاکتیں کم ہوئیں اور نقصان بھی زیادہ نہیں ہوا۔ سمندری طوفان بیپر جوائے تو گزر گیا مگر ہواؤں اور شدید بارشوں نے تباہی مچائی۔ کڑا وقت یہ سبق بھی دے گیا کہ نکاسی آب کا بہتر انتظام ضروری ہے اور پختہ تعمیرات عالمی معیار کے مطابق ہونی چاہئیں۔
ہلالِ احمرپاکستان اپنی خدمات کی فراہمی کا آغاز ضلع ٹھٹھہ کی تحصیل’’کیٹی بندر‘‘ سے کرتاہے۔ یہاں آرمی کے زیر انتظام 200 گھرانوں کو راشن اور گھریلو ضرورت کا سامان فراہم کیا جاتا ہے۔ اِسی ضلع مذید تین ہزار متاثرہ گھرانوں کو باقاعدہ رجسٹرڈ کر کے راشن سمیت گھریلو ضرورت کا سامان تقسیم کیا جاتا ہے۔اسی طرح نقل مکانی کرنے والے ضلع بدین کی ساحلی پٹی کے تین ہزار گھرانوں کو راشن پیکیج، مچھر دانیاں، پلاسٹک کے جیری کین، کیروسین لالٹین فراہم کی گئیں۔ہلال احمر کی جانب سے پہلی تقریب گاؤں احمد راجہ اور دوسری تقریب جمخانہ بدین میں منعقد ہوتی ہے۔راشن پیکیج 51 کلو گرام پر مشتمل تھا جس میں آٹا، چاول،کھانا پکانے کا تیل، چینی، دالیں، چائے کی پتی، مصالحہ جات شامل تھے۔ضلع سجاول کے تین ہزار گھرانے راشن پیکج اور گھریلو ضرورت کے سامان سے مستفید ہوتے ہیں۔ضلع عمر کوٹ میں ایک ہزار گھرانوں کی مدد کر کے ہلال احمر پاکستان اپنی کمٹمنٹ پوری کرتا ہے۔ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تحریری صورت میں داد تحسین ملتی ہے ۔متاثرین کی داد رسی ہلال احمر پاکستان کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری ہلال احمر اپنا فرض سمجھ کر بطریق احسن نبھاتا ہے۔
ہلال احمر کے رضاکار گھر گھر جا کر مستحق افراد کو کوپن دیتے ہیں اس سے شفافیت برقرار رہتی ہے۔ہلال احمر پاکستان جہاں سیلاب متاثرین کی خدمت میں مصروف تھا وہاں اس نے سمندری طوفان کے متاثرہ 10 ہزار گھرانوں کی بروقت مدد کر کے اپنافرض پورا کیا۔