بجلیاں گرانے والے بل!!!!!

Aug 29, 2023

محمد اکرام چودھری


سب سے پہلے ارشد ندیم کو مبارکباد۔ یہ پاکستان کا وہ جوان ہے جس نے وسائل کی کمی کو عذر یا بہانہ نہیں بنایا بلکہ محنت سے مقام بنایا اور دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ ارشد ندیم بار بار حکومت کو بتا رہا ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کر سکتا ہے۔ صرف وہی نہیں بلکہ اس جیسے اور باصلاحیت کھلاڑیوں پر بھی توجہ دی جائے تو ملک میں صحت مند ماحول بن سکتا ہے۔ نوجوانوں کو کھیل کے میدانوں میں لا کر منفی سرگرمیوں سے بچایا جا سکتا ہے۔ ارشد ندیم ہمارا فخر ہے، وہ ہماری پہچان ہے اس جیولین تھرو میں میڈلز جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ اس کی دیکھ بھال سرکاری سطح پر ہونے کی ضرورت ہے 
بجلی استعمال کرنے والوں پر بجلی کے بل ایسی بجلیاں گرا رہے ہیں کہ ہر دوسرا شخص ان بلوں کی تاب نہ لاتے ہوئے گھروں سے نکل کر سڑکوں پر ہے۔ ملک بھر میں بجلی کے بھاری بلوں تلے عام آدمی دبا ہوا ہے اور اس کی چیخیں آسمان تک جا رہی ہیں خدا کرے کہ یہ چیخیں اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے بےحس افراد کے کانوں پر بھی اثر کریں۔ وہ جو اس وقت حکمران ہیں اور وہ جو چند روز قبل تک ملک پر حکمرانی کر رہے تھے یہ شور اور چیخ و پکار ان کے دماغوں پر ایسا اثر چھوڑے کہ بجلی کے بھاری بلوں سے ستائے لوگوں کو سہولت دینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے اور دوبارہ اقتدار تک جانے کی خواہش رکھنے والوں کے دلوں میں ویسے تو عام آدمی کے لیے کوئی نرمی یا رحم نہیں ہوتا لیکن خدا کرے کہ یہ احتجاج حکمرانوں کو عام آدمی کو سہولت دینے پر مجبور کرے۔ خدا کرے کہ ایسا ہو کیونکہ اس وقت وہ سب لوگ بھی مذمتی بیانات جاری کر رہے ہیں جنہوں نے ملک میں اربوں روپے کی مفت بجلی کو نہ روکا لیکن اربوں کا بوجھ عام آدمی پر ڈال دیا۔ وہ جماعتیں بھی مہنگی بجلی کے خلاف احتجاج کا حصہ ہیں جنہوں نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا۔ عام آدمی کے لیے بجلی مہنگی کر دی لیکن نہ تو افسران کے لیے مفت بجلی کی سہولت ختم کی نہ ہی بجلی چوری روکنے کے لیے کام کیا اور نہ ہی بل جمع نہ کروانے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا بلکہ چوری اور عدم ادائیگی کا جو پچیس تیس فیصد اضافی بوجھ ہے یہ بھی عام آدمی پر ڈال دیا۔ عجب بےرحم اور دوہرے چہرے کے حامل حکمران ہیں۔ عوام کو ڈیفالٹ ڈیفالٹ اور آئی ایم ایف آئی ایم ایف سناتے رہے افسر شاہی کو سہولت دی، اپنے لیے قانون سازی کی، سیاسی مخالفین کی نقل و حرکت محدود کی، اپنے کیسز سیدھے کرنے کے لیے تھوک کے حساب سے قوانین بنائے یا تبدیل کیے لیکن بجلی کے غیر ضروری استعمال کو روکنے کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔ اگر انہیں عوام کا دکھ ہوتا تو بجلی چوری روکنے، بجلی کے غیر ضروری استعمال کو روکنے اور بجلی کے بل ادا نہ کرنے والوں کے خلاف بھی اسی سختی کا مظاہرہ کرتے جس کا مظاہرہ مخالف سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگانے کے لیے کیا گیا ہے۔ خدارا اس ملک کے کروڑوں لوگوں پر رحم کریں۔ ہر شخص پریشان ہے۔ جب لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہوں گے اور وہ یہ بھی دیکھیں گے کہ ان حالات میں بھی بااثر افراد کو مفت بجلی مل رہی ہے تو وہ قانون ہاتھ میں لینا شروع کر دیں گے جیسا کہ لوگ اپنے بلوں کو جلا رہے ہیں۔ متعلقہ محکمے کے لیے گلیوں محلوں بازاروں میں جا کر کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے حکومت کو اس حوالے سے بہتر حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ دو سو پچاس ارب کی بجلی چوری ہو رہی ہے اور افسران کو مفت بجلی کی فراہمی بھی جاری ہے لیکن ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے نعرے لگانے والوں نے یہ خرابیاں دور کرنے کے بجائے سب سے آسان راستہ اختیار کیا اور عام آدمی پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی۔ آئی پی پیز اس ملک کے لوگوں کا خون چوس رہی ہیں اصل سوال یہ ہے کہ وہ کون تھا جس نے یہ معاہدے کیے۔ مجھے یقین ہے کہ ان معاہدوں کی وجہ سے عام آدمی کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے موجودہ حالات میں درست نشاندہی کی ہے۔ حکومت نے چھ سات قسم کے ٹیکس بجلی کے بلوں میں شامل کر رکھے ہیں۔ کچھ خدا کا خوف کریں۔ حکمرانوں کی بدانتظامی کی سزا بھی عام آدمی کو مل رہی ہے۔ سربراہ ایم کیو ایم پاکستان خالد مقبول صدیقی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بجلی کے بلوں پر احتجاج فسادات میں تبدیل نہ ہو جائیں، حکومت کو چاہیے کہ عوام کو فوری ریلیف دینے کے لیے اقدامات کرے۔ سرکلر ڈیٹ کا دباو¿ کے الیکٹرک کے مالکان پر نہیں صارفین پر آرہا ہے۔ حیدرآباد میں بارہ سے چودہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ اتنی لوڈشیڈنگ کے باوجود بل وہی آ رہا ہے جس کی وجہ سے تاجر احتجاج پر مجبور ہو رہے ہیں۔ سابق وزیرتوانائی سندھ امتیاز شیخ کہتے ہیں کہ عوام بجلی کےمہنگے بل بھرنے کی سکت نہیں رکھتے لہٰذا نگران حکومت فوری طور پر بجلی کی قیمتوں میں پندرہ سے بیس روپے تک کمی کرے۔ بجلی کی قیمتوں میں ہو شربا اضافے پر عوامی احتجاج تشویش ناک ہے،گھریلو صارفین کیلئے ریلیف کی حد دو سو یونٹ سے بڑھا کر تین سو یونٹ کی جائے جب کہ افسر شاہی اور سرکاری ملازمین کی مفت بجلی کی سہولت ختم کی جائے۔ 
دلچسپ امر یہ ہے کہ ایم کیو ایم بھی حکومت کا حصہ تھی اور پاکستان پیپلز پارٹی تو حکومت میں اچھا خاصہ حصہ رکھتی تھی جب بجلی کی قیمتوں میں اضافے یا پھر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے ہو رہے تھے یہ دونوں جماعتیں حکومت میں تھیں۔ خود یہ بجلی مہنگی کر کے آئے ہیں اور اب نگران حکومت سے قیمتیں کم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایسی ہی دوغلی پالیسی کی وجہ سے ملک کا بے پناہ نقصان ہوتا ہے۔ 
حکومت کو ٹیکس کا مسئلہ ہے اس سلسلہ میں سب سے بہتر بات استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان نے کی ہے۔ آئی پی پی کے صدر  کہتے ہیں کہ ان کی حکومت آئی تو تین سو یونٹ تک بجلی مفت کر دیں گے۔ حکومت شہریوں پر رحم اور انہیں ریلیف فراہم کرے۔ امیروں پر مالی حیثیت کے مطابق ڈائریکٹ ٹیکس عائد  اور  وصول کیا جائے۔  حکومت دو سو یونٹ تک بجلی فری کرے  اور  موٹر سائیکل استعمال کرنے والوں کے لیے پیٹرول سستا کرے۔
سب سے اہم بات ٹیکس عائد اور وصول کرنا ہے جو کہ کوئی بھی حکومت نہیں کرنا چاہتی کیونکہ مالداروں کا اپنا ایک حلقہ ہے اور وہ بہت مضبوط ہے۔ حکومت کے پاس سب کی تفصیلات ہیں جو جتنا کما رہا ہے اس سے کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر ٹیکس وصول کریں۔ ان دنوں جو سیاست دان مہنگی بجلی پر سیاست کر رہے ہیں ان کی اکثریت کو دیکھ لیں تو اسمبلی میں رہتے ہوئے شاید ہی کسی نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا ہو گا۔ اکثریت نے اپنے تعلقات اور حلقوں کو بچانے کی بات کرتے رہے ہوں گے۔ ختم ہونے والی اسمبلی میں اکثریت نے بجلی کی پیداوار، بجلی کے کم استعمال اور توانائی کے متبادل ذرائع پر کوئی کام نہیں کیا۔ آج یہ کس منہ سے نگران حکومت سے بجلی کی قیمتوں میں فوری کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یاد رکھیں کہ لوگ بہت غصے میں ہیں اور جب مساجد میں اعلان ہونا شروع ہو جائیں کہ بجلی کے بل جمع نہیں کروائے جائیں گے تو یہ جان لیں کہ صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔
دوسری طرف آج عمران خان کی سزا معطلی کے معاملے میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر  آج فیصلہ سنانا ہے۔ اس کیس کا فیصلہ کچھ بھی ہو یہ طے ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اقتدار کی ہوس میں ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ میں تو دو ہزار انیس سے لکھ رہا ہوں اس وقت وزارتیں سنبھالنے والوں کو آج یاد آ رہا ہے کہ سابق وزیراعظم کا رویہ ٹھیک نہیں تھا یا وہ کسی کی سنتے نہیں تھے۔ ان دنوں خیبر پختون خواہ کے سابق وزیراعلٰی پرویز خٹک بہت متحرک ہیں۔ ٹھیک ہے خٹک صاحب الگ ہو گئے ہیں اور انہیں پرانی باتیں یاد آ رہی ہیں انہیں اب ماضی یاد دلانے کے بجائے جو تباہی ہوئی ہے اور لوگ متاثر ہوئے ہیں ان کی بحالی پر توجہ دینی چاہیے۔ ہر روز سابق وزیر اعظم کو برا بھلا کہہ دینا کافی نہیں بلکہ اپنے حصے کی تباہی کو سدھارنے کے لیے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں قمر جلالوی کا کلام
وہ سر کھولے ہماری لاش پر دیوانہ وار آئے
اِسی کو موت کہتے ہیں تو یا رب بار بار آئے
سرِ گورِ غریباں آو¿ لیکن یہ گزارش ہے
وہاں منہ پھیر کر رونا جہاں میرا مزار آئے
بہا اے چشمِ تر ایسا بھی اِک آنسو ندامت کا
جسے دامن پہ لینے رحمتِ پروردگار آئے
قفس کے ہو لئے ہم تو مگر اے اہلِ گلشن تم
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے
نہ جانے کیا سمجھ کر چ±پ ہوں اے صیّاد میں ورنہ
وہ قیدی ہوں اگر چاہوں قفس میں بھی بہار آئے
قمر دِل کیا ہے میں تو ا±ن کی خاطر جان بھی دیدوں
مِری قسمت اگر ا±ن کو نہ پھر بھی اعتبار آئے

مزیدخبریں