مودی سرکار نے اپنی طرف سے ریاست جموں و کشمیر کو تقسیم کر کے اس کی نیم خودمختاری ختم کر کے اسے بھارتی ریاست بنا کر اپنی طرف سے بہت بڑا معرکہ سر کیا تھا۔ مگر اس کے سنگین نتائج اب جس طرح سامنے آ رہے ہیں وہ خود بھارتی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے لیے خاصے مایوس کن ہیں۔ بھارتی جنتا پارٹی نے بڑے منظم انداز میں ہندو اور مسلم مذھبی تفریق کے حوالے سے پورے ہندوستان میں نفرت کی جو لکیر کھینچی اور ہندتوا کے فلسفے کو بڑھاوا دیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی نہیں عیسائیوں کی نہیں بودھو کی نہیں صرف اور صرف بھارتی ہندو?ں کی جماعت ہے۔ اس کے اسی جنونی فلسفے نے اسے ہندو توا کے حامی ووٹروں کی بھرپور حمایت دلائی اور وہ کامیاب ہوئی۔
اس کی کامیابی کے بعد دوسری مرتبہ برسراقتدار آنے کے بعد بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا وہ سب کے سامنے ہے۔ان کوبیرحمی سے کچلا جا رہا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں بھی اس جنونی ہندو توا کی سیاست نے رنگ دکھایا وہاں بی جے پی نے جموں میں جہاں ہندو اکثریت آباد ہے وہاں اسے مذہبی طور پر بھرپور حمایت حاصل ہوئی اور وہاں کے ووٹروں نے آنکھیں بند کر کے ہندوازم کے نام پر بی جے پی کا جھنڈا اٹھا لیا۔ اس طرح انہیں خواب دکھایا گیا کہ ریاست کی وزارت اعلیٰ ان کے ہاتھ آ جائے گی اور مسلمانوں کی اکثریت کو آہستہ آہستہ ختم کر کے پوری ریاست کو ہندو اکثریتی ریاست بنا دیا جائے گا۔ اسی جھانسے میں آ کر ڈوگروں، پہاڑیوں اور دیگر چھوٹی بڑی ہندو برادریوں اور سکھوں نے بی جے پی کو جموں میں کامیاب کرایا۔
5 برس قبل جب مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی طور پر دی گئی خصوصی حیثیت ختم کر دی تو جموں میں اس پر خوب جشن منایا گیا۔ جموں والے بھول گئے کے اس طرح ان کی بھی خصوصی حیثیت ختم ہو گئی ہے۔ وہ بھی ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہندوستانیوں کی بھیڑ بھاڑ میں گم ہو گئے ہیں۔ کشمیریوں کو تو پھر بھی ان کی ثقافت، زبان اور مذہب کی وجہ سے ایک شناخت حاصل ہے جموں والے تو بھارتی پنجابیوں کے سیلاب میں ڈوب گئے۔ کیوں کہ ان کی زبان، رہن سہن اور ثقافت بہرحال پنجاب والوں جیسی ہے بس بولی یعنی لہجے کا فرق ہے۔ خطہ کشمیر میں تو بھارت آسانی سے دیگر بھارتی شہریوں کو لا کر آباد کرنے سے رہا کیونکہ ان کی. زبان کلچر اور بود و باش ہی جدا ہے۔جموں میں ایسا کرنا قدرے آسان ثابت ہوا اور لاکھوں پنجابی بولنے والوں کو جن میں ہریانہ چندی گڑھ کے باشندے ، فوج اور پولیس کے ریٹائرڈ ملازمین بھی شامل تھے بھارت نے غیر قانونی طور پر ڈومیسائل بنا کر انہیں وہاں لا کر آباد کرنے کا کام شروع کر دیا۔ ان کے لئے زبردستی اراضی لی گء اور مکانات تعمیر کئے گئے۔
اس کے بدترین اثرات اور مخالفانہ ردعمل اب سامنے آ رہا ہے۔ ڈوگروں، کشمیری سکھوں و دیگر پنجابی پہاڑی اور گوجری بولنے ولاے ہندو ؤں کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔ اب انہیں اپنے ہی علاقے میں اجنبی لوگوں کے لیے ان کی ملازمتوں، کاروبار اور زمینوں سے محروم کیا جا رہا ہے جس پر وہ بھڑک اٹھے ہیں۔ پہلے ملازمتوں کے حوالے سے جموں والوں نے مورچہ لگایا احتجاج کیا کہ ان سے ملازمتیں چھین کر بھارتی پنجاب والوں کو دی جا رہی ہیں۔ اب آبادی میں کمی کے خطرے پر وہ شور مچا رہے ہیں۔ ان کی زمینوں پر دوسرے صوبے کے لوگوں کو بلا کر آباد کیا جا رہا ہے اس سے بھی وہ نالاں ہیں۔ کشمیر پر قبضے کا خواب دیکھتے دیکھتے وہ اپنے ہی علاقے میں اجنبی اور اقلیت بنا دئیے گئے ہیں۔
اب تو یہ حال ہے کہ جموں کا خطہ کاروباری لحاظ سے ٹھپ پڑا ہے۔ کشمیر کا سارا مال جو پہلے جموں آتا تھا کروڑوں اربوں کی تجارت ہوتی تھی اب کشمیر سے براہ راست بالا بالا ہی بھارت جانے لگا ہے۔ کشمیری تاجر جموں کی بجائے براہ راست دوسرے شہروں سے روابط بڑھا کر وہاں جا کر مال لے جا کر اپنا کام کاج چلا رہے ہیں۔ اس معاشی صورتحال کا سب سے بڑا اثر جموں کی معاشی حالت پر ہو رہا ہے۔ ان کی کاروباری زندگی کشمیر سے جڑی ہوئی تھی۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری تھا۔ موسم سرما میں کشمیری تاجر ہی نہیں سرکاری ادارے، امور سلطنت چلانے 6 ماہ جموں آتے تھے جو موسم سرما میں کشمیر کا سرماء دارالحکومت تھا۔ یوں چہل پہل رہتی کاروبار چلتا۔ اب یہ سلسلہ 5 برسوں سے بند ہے۔ جموں کے تاجر اور کاروباری لوگ بدحال ہو رہے ہیں اور تنگ آ کر وہ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی سابقہ آئینی حیثیت کی بحالی کے مطالبے پر اتر آئے ہیں۔ کشمیری مسلمان تو پہلے ہی اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ اب جموں میں ڈوگرے، سکھ اور پہاڑی، گوجری بولنے والے ہندو بھی دفعہ 370 و آرٹیکل 45 اے کی بحالی کے لیے یکجا ہو رہے ہیں اور جموں سے غیر کشمیریوں کو نکالنے اور پنجابیوں کی آبادکاری بند کرنے کے مطالبے کر رہے ہیں۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جموں کشمیر ، لداخ و گلگت بلتستان صدیوں سے وحدت میں پروئی ایک ایسی مالا ہے جو سربلند پہاڑوں کی طرح ناقابل تسخیر ہیں۔ ان کو توڑنا علیحدہ کرنا علاقے کی جغرافیائی صورتحال کو بدلنا بچوں کا کھیل نہیں۔ اس کا برائے راست اثر علاقاء سیاست پر پڑ سکتا ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان کے زیر کنٹرول علاقہ ہے۔ لداخ کو اب بھارت نے براہ راست اپنے کنٹرول میں لے کر کشمیر سے علیحدہ کر دیا ہے۔ جموں و کشمیر میں مقیم ہندوئوں ، سکھوں اور مسلمانوں میں دراڑ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی گئی جو ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ زبان رنگ و نسل سے ہٹ کر یہاں کشمیریت آج بھی ایک مضبوط وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ جموں و کشمیر کے لوگ اپنی کشمیریت پر اس سے جڑے رہنے پر فخر کرتے ہیں۔ آج جموں کے رہنے والوں کو اس بات کا احساس شدت سے ہونے لگا ہے کہ وہ بہت بڑی غلطی کر کے ہندو توا کے جال میں پھنس کر اپنی وحدت سے کٹ گئے اور اب بھارتی حکمران انہیں انہی کے علاقے میں اکثریت سے اقلیت میں بدل رہے ہیں۔ جموں کشمیر کو ہڑپ کرنے کے بعد ا س کی شناخت چھینی جا رہی ہے تاکہ بھارت سے لا کر مختلف اقوام کے نسل کے ثقافت کے لوگوں یہاں آباد کر کے اسے ہندو اکثریت والا علاقہ ثابت کیا جا سکے۔
مگر بھارت اس منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ کشمیری جو گزشتہ 75 سالوں سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ڈیڑھ لاکھ جانوں کی قربانی دے چکے ہیں مگر وہ تھکے نہیں نہ ان کے حوصلے مانند پڑے ہیں۔ اب دیکھنا ہے جموں والے کب تک اپنے روزگار، کاروبار، نوکریوں اور زمینوں کے تحفظ کے لئے اپنی شناخت کی بقا کے لیے کھڑے رہتے ہیں۔
اس وقت بھارتی سپریم کورٹ نے بھی 5 سالہ نیند کے بعد انگڑائی لی اور ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف دائر رٹ کی سماعت شروع کر دی ہے۔ نیم دلی سے ہی سہی اس کی روزانہ سماعت سے کشمیری سیاستدانوں کو امید ہے کہ کوئی منصفانہ فیصلہ ہو سکتا ہے۔ مگر کشمیری عوام جانتے ہیں کہ بھارت کی عدالتیں بھی مودی سرکاری کے ہندو توا کی پالیسی کے آگے سر تسلمی خم کئے ہوئے ہیں۔ ہاں البتہ خوشی کی بات یہ ہے کہ جموں اور کشمیر کے عوام اپنی سابقہ حیثیت کی بحالی کے لیے متحد ہو گئے ہیں۔