پاکستان طویل عرصے سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے جس کی وجہ سے جہاں اس کے ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں وہیں لسانیت ، فرقہ واریت اور صوبائیت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ اندرونی خلفشار کے باعث ملک دشمن قوتیں بھی محترک دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان میں افغانستان سے در اندازی کے علاوہ مختلف علاقوں میں شیعہ ، سنی فسادات ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اچانک سے اضافہ ہوگیا ہے۔ خاص طور پر نواب اکبر خان بگٹی کی برسی کے موقع پر بلوچستان میں دہشت گردوں نے جو خون کی ہولی کھیلی ، ملکی اور شہریوں کی املاک کو نقصان پہنچایا اور قوم پرستی اور صوبائی تعصب کی بناء پر معصوم شہریوں کا قتل عام کیا گیا یہ سب کچھ راء کی سرپرستی میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا جس پر وفاقی وصوبائی حکومت کو چاہیے کہ امن و امان کی بحالی اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ان ظالمانہ کارروائیوں میں ملوث دہشت گرد عناصر کو عبرت کا نشان بنایا جائے اور دہشت گردوں کا قلع قمع کیا جائے۔ ضلع موسیٰ خیل میں بسوں اور سڑکوں کو روک کر مسافروں کی شناخت پریڈ کے بعد قتل کئے جانے والے 23 افراد میں سے زیدہ تر کا تعلق پنجاب کے علاقوں مظفرگڑھ ، لیہ ، تونسہ ، ملتان ، علی پور ، فیصل آباد اور وہاڑی سے ہے۔ مزدوری کی غرض سے بلوچستان جانے والے ان معصوم شہریوں کی میتیں ان کے آبائی علاقوں میں پہنچنے پر فضاء سوگوار رہی۔ اسی طرح رحیم یار خان کے کچے کے علاقہ میں ڈاکوؤں کے حملہ کے نتیجہ میں پنجاب پولیس کے 12 جوان جان کی بازی ہار گئے۔ کچے کے ڈاکوؤں کی جانب سے راکٹ لانچر ، ایم ایم جی سمیت جدید اسلحہ سے اس وقت حملہ کیا گیا جب پولیس پارٹی شفٹ تبدیلی کے بعد ڈیوٹی سے واپس جارہی تھی اور ان کی گاڑی خراب ہو گئی۔ ایسے میں ڈاکوؤں کی جانب سے پولیس فورس پر بھاری اسلحہ سے جو اچانک حملہ کیا گیا اس میں پولیس اہلکاروں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا اور اس حملہ میں 12 پولیس اہلکاروں کی شہادت کی خبر ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور فضاء سوگوار ہو گئی۔ چند ہفتے قبل ہی پولیس مقابلے میں چار ڈاکوؤں کی ہلاکت کے بعد ڈاکوؤں کے جوابی حملے میں 4 پولیس اہلکاروں کی شہادت کا غم ابھی تازہ ہی تھا کہ ڈاکوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر حکومتی رٹ کو چیلنج کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کچے کے ان ڈاکوں کا کوئی پکا بندوبست کیوں نہیں ہوپارہا۔ سندھ ، پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں کچے کا طویل علاقہ ان ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کا مسکن ہے اور تین دہائیوں سے ہر کچھ عرصے بعد سکیورٹی اداروں اور حکومت کی جانب سے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ ماضی میں پنجاب اور سندھ پولیس انتظامیہ کا یہ مؤقف ہوتا تھا کہ ڈاکوؤں کے مقابلہ میں پولیس کے پاس وسائل اور جدید اسلحہ کی کمی ہے جس پر حکومتوں کی جانب سے پولیس کو وسائل فراہم کرنے کے لئے اربوں روپے کے فنڈز مہیا کئے جانے کے دعوے سامنے آتے رہے مگر جب بھی کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو یہی انکشاف سامنے آتا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو بغیر وسائل فراہم کئے اور بنا جدید اسلحہ ڈاکوں کے علاقہ میں تعینات کر دیا جاتا ہے اور یہ پولیس اہلکار ظالم ڈاکوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ جزیروں پر مشتمل دریائے سندھ کے کچے کے علاقوں میں یہ ڈاکو پکے بکتر بند مورچے بنا کر بیٹھے ہیں اور یہ علاقہ ان کی محفوظ پناہ گاہیں کیونکہ ان ڈاکوؤں کو علاقے کے سرداروں اور وڈیروں کی آشیر باد اور سرپرستی بھی حاصل ہے اور یہ وڈیرہے ان ڈاکوؤں کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عام ہیں حتیٰ کہ ڈاکو آئے روز پولیس اہلکاروں کو بھی یرغمال بنا لیتے ہیں۔ ڈاکوؤں کی شرائط پر پولیس اہلکاروں کو بازیاب کرایا جاتا ہے۔ کچے کے ان علاقوں میں حکومتی رٹ کی بحالی کیلئے بین الصوبائی بڑے آپریشن کی ضرورت ہے جس میں صوبائی حکومتوں کے درمیان بہتر کو آرڈینیشن انتہائی ضروری ہے۔ ان علاقوں کو دہشت گردوں اور ڈاکوؤں سے پاک کرنے کے لئے خصوصی چھا?نیوں کی تشکیل ضروری ہے اسی طرح پولیس فورس کو بھی ڈاکوؤں کے مقابلے کیلئے بکتر بند گاڑیاں ، جدید اسلحہ اور بھرپور وسائل فراہم کرنا ہونگے بصورت دیگر یہ جرائم پیشہ افراد اسی طرح حکومتی رٹ کو چیلنج کرتے رہیں گے اور معصوم شہری بھی اسی طرح اغواء برائے تاوان اور دیگر وارداتوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ بلوچستان ہو ، کے پی کے ، سندھ یا پنجاب کے کچے کے علاقے جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے خلاف زیرو ٹالرینس کی پالیسی پر گامزن ہو۔
سانحہ رحیم یار خان کے بعد وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی ، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سمیت پولیس حکام نے فوری طور پر رحیم یار خان کا دورہ کیا اور دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑنے کے عزم کا اظہار کیا۔ دوسری جانب بجلی ، گیس کے نرخوں میں اضافے اور تاجروں پر لگائے گئے ٹیکسز کیخلاف ملک کے دیگر علاقوں کی طرح جنوبی پنجاب میں بھی تاجروں نے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی اور اس مرتبہ بیشتر تاجر تنظیمیں ان ایشوز پر متحد دکھائی دیں اور اس ہڑتال کو کامیاب بنایا۔ جماعت اسلامی کی جانب سے بھی 28 اگست کی اس ہڑتال کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاجر رہنماؤں خواجہ محمد شفیق ، خواجہ سلمان صدیقی اور امیر جماعت اسلامی ملتان ڈاکٹر صفدر ہاشمی کی جانب سے اس کامیاب ہڑتال کو حکومتی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف ریفرنڈم قرار دیا گیا۔ تاجر رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اگر اب بھی حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور تاجروں کے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو تاجر حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا اعلان کرنے پر مجبور ہوں گے اور حکومتی ایوانوںکاگھیراؤ کیا جائے گا۔ اس ضمن میں آل پاکستان انجمن تاجران اور تنظیم تاجران کی مشترکہ ہڑتال کی کال کے حوالے سے بجلی کے بلوں میں اضافے،تاجر دشمن سکیم، اور مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا مظاہرہ کی قیادت مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے مرکزی چیئرمین خواجہ سلیمان صدیقی نے کی۔ اس موقع پر خواجہ سلیمان صدیقی نے کہا مطالبات تسلیم ہونے تک پیچھے نہیں ہٹیں گے، ایک دن کی ہڑتال ٹوکن ہے اس کے بعدہم تمام تاجر تنظیموں ںسے مشاورت کے بعد غیر معینہ مدت تک کے لیے بھی کال دے سکتے ہیں، 15سال سے ہمیں اپنا بجٹ خود بنانے کی اجازت نہیں اور آئی ایم ایف کے نمائندے ہمارا بجٹ بنارہے ہیں ہم ٹیکس دینے سے انکاری نہیں مگر قواعد وضوابط ہونے چاہیں۔ آئے دن چھوٹے تاجروں پر ٹیکس کے عذاب آرہے ہیں ہر تاجر کو رجسٹر ہونا چاہیے تاہم آمدنی کے مطابق ٹیکس وصولی کے حامی ہیں۔ ایف بی آر کے ٹیکس وصولی کے ظالمانہ طریقہ کار سے اختلاف ہے آج پاکستان بھر کے تاجر متحد ہیں اگر بجلی کے نرخوں میں کمی نہ لائی گئی اور تاجروں پر لگائے گئے ٹیکسز کو فی الفور ختم نہ کیا گیا تو ہم غیر معینہ مدت تک ہڑتال کی کال دینے پر مجبور ہونگے۔