پاکستا ن میں سیاسی جماعتوں کے سربراہان تک رہنمائوں اور عام کارکنوں کی رسائی نہ ہونا یہ ایک ایسا المیہ ہے جس پرپارٹی کی میٹنگز میں بھی دبے الفاظ اور محتاظ انداز پر بات کی جاتی ہے ۔پارٹی سربراہوں کی موجودگی میں یہ باتیں مکمل جگرے کے ساتھ وہ کارکن اور رہنما ہی کرپاتے ہیں جو پارٹی کے ساتھ وفادار ہوتے ہیں اور وہ پارٹی کے لئے سردھڑ کی بازی لگانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے اور ان کا دائو پر کچھ نہیں لگا ہوتا ۔پنجاب جس نے ہمیشہ سیاسی جماعتوں کو اقتدارکے زینوں تک پہنچایا ہے اس کا کردار ہمشیہ نمایاں ہی رہا ہے مگر اب پنجاب میں پیپلز پارٹی کے کارکن اور رہنما یہ شکوے اپنی جماعت سے کرتے ہی نظر آتے ہیں کہ پنجاب کی پی پی کی قیادت ان کی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زدرداری سے ملاقاتوں میںسب سے بڑی رکاوٹ ہیں،ان رکاوٹوں کی بلندی پہاڑ سے زیادہ ہیںان رہنمائوں اور پارٹی کارکنوں کی رسائی آصف علی رزداری ،اور بلاول بھٹوزرداری سے اتنی دور کردی گئی ہے کہ ان کی ملاقا ت تو دور کی بات ان کی آواز بھی وہاں تک نہیں پہنچ رہی جو بڑی تشویش کا باعث ہے اور پارٹی کے لئے بڑی خطرناک بات ہے ۔اگر ہم بات کریں 2024 کے انتخابات کی توالیکشن بہت ہی مشکل اور مختلف حالات میں ہوئے ہیں ، پیپلز پارٹی کے لوگوں نے پنجاب میں یہ الیکشن کوئی عام حالات میں نہیں لڑے،ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کو بڑی دشواریوں کا سمانا کرنا پڑا ہے ۔ جنہوں نے الیکشن لڑا ان کا بھی یہ دعوی ہے کہپارٹی قیادت پر لبیک کہا اور مشکل حالات میں میدان میں اترے،مگر الیکشن کمیشن نے ان کے نتائج کو بھی بدلا ہے جہاںپیپلز پارٹی کے امیدواروں نے اکتیس ہزار ووٹ لئے گئے اس کو اکتیس سو بنا کر الیکشن کمیشن نے ویب سائٹ پر لگادیا گیا ۔یوں فارم 47 کی تکلیف انہیں بھی اتنی ہی پہنچی ہے جو تحریک انصاف کے لوگوں کو پہنچی ہے ۔کثیر سرمایہ کے ساتھ الیکشن ان حالات میں لڑنا جہاں ان کو سپورٹ نہ ہونے بلکل بھی امید نہ ہو بہت بڑے حوصلے کی بات ہے جن امیدواراں نے پنجاب میں یہ الیکشن لڑا انہوں نے پارٹی کی آواز پر لبیک کہا اور میدان میں اترے ۔دوہزار چوبیس کے الیکشن ہوگئے مسلم لیگ ن کے وفاق میں حکومت بنائی اور پیپلز پارٹی سیاسی اتحاد کے طور پر حکومت میں شامل ہوئی ۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے عام ورکرز اور رہنمائوں کا خیال یہ تھا کہ ان کی قربانیوں اور مسلسل جدوجہد کا مداوا ضرور ہوگا کیونکہ پیپلز پارٹی حکومت کے اتحادی پارٹنر کے طور پر سامنے آئی ہے مگر ایسا نہ ہوسکا ۔پیپلز پارٹی کے گلے شکوے جب پنجاب میں بڑھے تومسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کہا کہ یہ گلے شکوے دور کئے جائیں جس پر ایک کمیٹی وجود میں آئی ،جس نے ایک اجلاس گورنر ہائوس میں کیا ۔جس کے بعد ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پورے صوبے میں پیپلز پارٹی کے مسائل پر بات چیت کی گئی ہوگی ،مگر پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت نے اپنے لوگوں کے ساتھ ہی ہاتھ کردیا اور اس کی کانوں کانوں خبر کسی کو نہ لگنے دی گئی ہوا یوں کہ پنجاب میں تمام حلقوں پر بات کرنے کی بجائے پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت 36 حلقوں پر ترقیاتی کام کروانے صرف زورلگاتی رہی ۔ یہ بات بڑی واضح ہے کہ پیپلز پارٹی کی پنجاب کی موجودہ قیادت جن 36حلقوں پر اپناکام کروانا چاہتی ہے ان حلقوں کے دو ہزار چوبیس کے انتخابات کے نتائج دیکھیں تو ان 36 حلقوں کے ووٹ ملا کر 16ہزار سے زیادہ نہیں بنتے ،اور اس پر پیپلز پارٹی کے وہی رہنما زور لگارہے ہیں جوماضی میں ان حلقوں سے جیت کر قومی و صوبائی اسمبلی میں آتے رہے ہیں ،پیپلز پارٹی کے یہ قیادت اپنی سوچ کے مطابق ہی کام کروانے کے لئے مسلم لیگ ن پر اپنی قیادت کے ذرئیے دبائو ڈال رہے ہیں ،پیپلز پارٹی کے یہ مخصوص علاقے لالہ موسی،گوجر خان،راولپنڈی،ملتان،چنیوٹ،منڈی بہاوالدین،رحیم یار خان ،مظفر گڑھ،لیہ،سرگودھا،اٹک سمیت کچھ اور حلقے شامل ہونگے ۔موجودہ قیادت نے لاہور ِ،قصور،ننکانہ، اوکاڑہ،،ساہیوال ،گوجرانوالہ ،شیخوپورہ ،وزیرآباد،حافظ آباد،خانیوال ،فیصل آباد سمیت دیگر اضلاع پر بات کرنے پر تیار نہیں ہے ۔یہی قیادت جس کا یہ دعوی ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو پھر سے کھڑا کیا جائے گا اور بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم پاکستان بنایا جائے گا اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے تو ن حالات میں پارٹی کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی اور بلاول بھٹوکا وزیراعظم بننے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا کیونکہ پنجاب کی مدد کے بغیر بلاول کا وزیراعظم پاکستان بننا ناممکن ہے ۔ پنجاب جس کی صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستیں 297 ہیں اور 114 قومی اسمبلی کی نشستیںہیں اس میں پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت صرف 36حلقوں میںبات کررہی ہے جس پر پارٹی کارکنوں اور رہنمائوں میں شدید اضطراب پایا جارہا ہے اور پارٹی کارکنوں کی یہ سوچ ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی اس قیادت نے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو تک عام کارکن اوررہنمائوں کی رسائی اتنی مشکل بنادی ہے کہ پارٹی کارکن شدید مایوس ہیں وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ پنجاب کی یہ قیادت کہیں کسی اورکے اشاروں پر توکام نہیں کرررہی کیونکہ جس مشکل حالات میں پارٹی کے وفادار لوگ اپنی قیادت اور جماعت کے ساتھ کھڑے رہے ان کو آوٹ کردیا گیا ہے اور موجودہ قیادت میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ پارٹی کو دوبارہ پائوں پر کھڑاکریں کیونکہ پارٹی سربراہان سے اسی قیادت نے وفادار کارکنوں سے لمبی دوری پیدا کردی ہے ۔پارٹی کارکن یہی سوچتے ہیں کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کو چاہئے کہ پنجاب میں پارٹی کی از سر نو تنظیم سازی کی جائے ،ڈویژنز تنظیم کو فوری طور پر توڑ دیا جائے صرف صوبائی سطح پر پارٹی قیادت قائم ہواور ہر ضلع کی سطح پر قیادت کو متحرک کیا جائے اور روایتی سیاست دانوں کی بجائے نوجوان قیادت کے ہاتھوں پنجاب میں پارٹی کی بھاگ دوڑ دی جائے تاکہ پارٹی کو مضبوط کیا جاسکے وگرنہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو زندہ رکھنا مشکل ہوجائے گا اور پنجاب کی وہ قیادت جس نے صوبائی سطح پر پارٹی کو ہائی جیک کیا ہوا ہے ان سے اختیارات واپس لئے جائیں اگر ایسا نہ ہوا تو پارٹی کا رہا سہا ووٹ بنک بھی بکھر جائے گا اور پارٹی کارکن دوسری جماعتوں میں جانا شروع ہوجائیں گے ۔