برطانوی سیاست کے اتار چڑھائو اور جمہوری رویوں کو جس طرح سمجھنا آسان نہیں‘ اسی طرح امریکی ایوان کے نمائندگان کے دیئے سیاسی بیانات کی روشنی میں فوری حتمی رائے قائم کرنے سے قبل عالمی امور کے بارے میں سوچنا اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ ’’کرسٹوفر کولمبس‘‘ کی دریافت سے قبل امریکی سیاسی تاریخ کے دریچوں میں اگر جھانکا جائے تو یہ اندازہ لگانا کہ امریکہ نے ’’یونائٹڈ سٹیٹس آف امریکہ‘‘ کا طویل سفر کن مراحل سے گزر کر مکمل کیا‘ قطعی دشوار نہیں۔ اس پر تفصیلی کالم پھر کبھی۔ مگر یہ درست ہے کہ امریکہ بلاشبہ آج ایک سپرپاور ہے جو اپنے ترقی یافتہ دوست ممالک کے تعاون اور اپنی مضبوط معاشی‘ اقتصادی‘ عسکری اور سیاسی پالیسیوں کی بدولت دنیا کے کمزور‘ غیرترقی یافتہ ممالک کے اقتصادی اور سیاسی حالات پر مکمل گرفت حاصل کر چکا ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کہنے کو تو ہر ’’ماڑا ملک‘‘ اپنے معاشی اور اقتصادی حوالے سے اپنے آپ کو آج آزاد اور خودمختار ملک کہلواتا ہے مگر معاشی بحرانوں سے دوچار ان ممالک کو دروازہ آج بھی امریکہ ہی کا کھٹکھٹانا پڑ رہا ہے۔ یہ مختصر سی تمہید باندھنے کی ضرورت مجھے محض اس لئے محسوس ہوئی کہ ٹھیک تین ماہ بعد امریکہ میں قومی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ اسے بھی اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ سال 2024ء میں دنیا کے کئی ممالک میں انتخابات مکمل ہو چکے ہیں یا ہونے جا رہے ہیں۔ پاکستان‘ بھارت‘ فرانس اور برطانیہ کے بعد امریکی انتخابات اس لئے بھی زیادہ دلچسپ صورت اختیار کریں گے کہ امیدواروں میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکہ کی نائب صدر کملاہیرس کے مابین کانٹے کا مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔ کملاہیرس کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ یاد رہے کہ 81 سالہ امریکی صدر جوبائیڈن نے جو چند ہفتے قبل صدارتی امیدوار سے کسی بھی طور پر دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھے‘ دستبردار ہو کراب اپنی نائب صدر کملاہیرس کو جو کیلیفورنیا سے 2017-21ء تک بطور سینیٹر اور اٹارنی جنرل بھی رہ چکی ہیں‘ صدارتی امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ کملا ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں جن کی ماں بھارتی اور باپ جمیکن نڑاد ہیں اور عام طور پر انہیں کملادیوی بھی کہا جاتا ہے۔
دوسری جانب ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار 78 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ مدمقابل ہیں۔ ٹرمپ سابق صدر بھی رہ چکے ہیں اور حال ہی میں ایک قاتلانہ حملے سے بال بال بچے ہیں۔ یونیورسٹی آف پینسلوینیا سے سائنس اور اکنامکس کے ڈگری ہولڈر ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں بالعموم یہ تاثر بھی عام ہے کہ عسکری جنگ کے بجائے وہ ’’لفظی جنگ‘‘ پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کملاہیرس سے آجکل انہوں نے باقاعدہ طور پر اپنی لفظی جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ وہ کملا کو کمزور حریف قرار دے رہے ہیں جبکہ کملا جواب میں ٹرمپ کو امریکہ کو ملک تقسیم اور عوام میں تفریق ڈالنے کا موجب قرار دے رہی ہیں۔
آنیوالے آئندہ چند ہفتوں میں دونوں صدارتی امیدوار اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں کے بارے میں کیا اعلان کرنے جا رہے ہیں‘ ملکی اور عالمی بحرانوں کے حل کیلئے کیا فارمولہ پیش کرینگے‘ کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی کامیابی کی صورت میں اس بار پاکستان کے معاشی اقتصادی اور سیاسی حالات کو ضرور سرفہرست رکھیں گے جبکہ امریکی سیاست پر مضبوط گرفت رکھنے والے میرے ایک گورے دوست نے تو اپنا سیاسی تجزیہ پیش کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ٹرمپ اپنی کامیابی کی صورت میں لفظ ’’ڈومور‘‘ کو اس مرتبہ پاکستان میں سیاسی استحکام کیلئے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اسکی ایک بڑی مثال دوست نے یہ دی کہ ڈونلڈ ٹرمپ چونکہ عیسائیت کے پیروکار ہیں اس لئے انتخابات سے قبل ہی انہوں نے امریکی مسیحیوں سے یہ درخواست کر ڈالی ہے کہ اس مرتبہ انہیں ان کا ووٹ درکار ہے۔ امریکہ بھر کے مسیحی انہیں اگر ووٹ دیتے ہیں تو اگلے چار برسوں کے بعد دوبارہ انہیں ووٹ نہیں دینا پڑیگا۔ مسٹر ٹرمپ کے اس سیاسی بیان نے مبینہ طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنمائوں میں بھی ہلچل مچا دی ہے۔ عام سیاسی ورکرز انکے اس بیان کا ادراک نہیں کر پائے چنانچہ مسیحیوں پر مزید یہ صورتحال واضح کرنے کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کے ترجمان کو اگلے روز کہنا پڑا کہ مسٹر ٹرمپ نے یہ بیان ملک کے عوام کو متحد کرنے کیلئے دیا ہے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں ٹرمپ پر گولی چلانے والے 20 سالہ نوجوان کے بارے میں تادم تحریر یہ معمہ حل نہیں ہو سکا کہ اس نوجوان نے آخر گولی کیوں چلائی؟
اب یہ بحث کہ ریپبلکن یا ڈیموکریٹک پارٹی کامیاب ہوگی‘ نومبر 2024ء تک انتظار کرنا ہوگا تاہم یہ بات اٹل ہے کہ موجودہ صدر جوبائیڈن کو غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی بتدریج جاری رکھی وحشیانہ کارروائیوں اور حال ہی میں تہران میں شہید کئے گئے حماس لیڈر سے خطے اور عالمی سطح پر یکدم بدلتی صورتحال کے تناظر میں اپنے Tenure سے قبل عالمی برادری کو اسرائیل کے ان وحشیانہ اقدام کے بارے میں حتمی ضرور پیش کرنا ہوگی کہ امریکی ایوان نمائندگان کے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی چالیس ہزار شہادتوں پر کئے افسوس اور اسرائیلی حملوں کی مذمت کے باوجود اسرائیل سیز فائر کیوں نہیں کررہا؟؟
آخر میں حال ہی میں برطانیہ میں نسلی تعصب پھیلانے والی ’’English Defence leage ‘‘ نامی تنظیم کے بارے میں چند حقائق !
EDLایک سفید فام تنظیم ہے جو 76 کی دہائی میں ایشائیوں ، رنگدار افراد اور بالخصوص ’’پاکستانیوں ‘‘ کے خلاف نسلی ریمارکس دینے والی تنظیم ’’Head Skin ‘‘ کی طرح سوچ رکھتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف گزشتہ چند ہفتوں سے شدید ہنگامہ آرائی میں ملوث ہے۔ ان حملوں کا بنیادی پس منظر تین بچوں کے حالیہ قتل میں ملوث ایک 17 سالہ نوجوان ہے جسے ای ڈی ایل ‘‘ نے مسلم قرار دے کر برطانیہ بھر میں مساجد اور مسلمانوں پر مبینہ طور پر قاتلانہ حملوں کا آغاز کردیا ہے۔ 17 سالہ ملزم کی گرفتاری پر معلوم ہوا کہ وہ ‘‘غیر مسلم ‘‘ ہے مگر EDL مساجد اور دیگر مذہبی مراکز کو بدستور نقصان پہنچا رہی ہے ! جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں ان بڑھتے ہنگاموں کے پیش نظر وزیراعظم سرکیئر اسٹارمر نے ہنگامی طور پر Meating Cobra کا اجلاس بلا لیا ہے ‘‘کوبرامیٹنگ ‘‘ اس وقت بلائی جاتی ہے جب ملک میں کسی بھی ایشو پر انتشار یا خوف بڑھنے کے خطرات موجود ہوں۔ اس اجلاس میں تمام وزراء پولیس نمائندگان ، انٹیلی جنس ادارے ، سول سرونٹس ، اوردیگر قومی اداروں کے نمائندگان کی خصوصی شرکت لازمی ہوتی ہے یہ اقدام سی ڈی ایل کے شرپسند عناصر کی نسلی سرگرمیوں پر فوری قابو پانے کیلئے اٹھایا گیا ہے۔
میری مسلم کمیونٹی سے خصوصی درخواست ہوگی کہ وہ مساجد آتے وقت اپنے آس پاس کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے پر امن رہیں اور کسی بھی نا خوشگوار واقعہ کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دیں۔