پنجاب کے تعلیمی اداروں کی یتیمی

پنجاب آبادی کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ ملک کے بہت سے اہم ترین تعلیمی مراکز بھی اسی صوبے میں ہیں۔ اسی لیے دوسرے صوبوں سے بھی طالب علم تعلیم کے حصول کے لیے پنجاب کا رخ کرتے ہیں۔ یہی صورتحال کاروبار کے حوالے سے بھی ہے۔ صوبے بھر میں امن و امان کے قیام کی وجہ سے دیگر صوبوں کے باسی بھی کاروبار کے لیے پنجاب کا انتخاب کرتے ہیں۔ دوسرے صوبوں سے جو چیزیں لوگوں کو پنجاب کی طرف کھینچتی ہیں ان میں سے ایک انفراسٹرکچر کی بہتری بھی ہے۔ انھی باتوں کو سامنے رکھ کر کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پنجاب دیگر صوبوں کی نسبت وفاقی حکومت کی زیادہ توجہ اور وسائل حاصل کرتا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ پنجاب میں ترقیاتی کاموں کا سہرا وفاقی کی بجائے صوبائی حکومت کے سر ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایک تو یہ ترقیاتی کام چند شہروں تک محدود ہیں۔ اور دوسرا، تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ گزشتہ کئی برس سے پنجاب مختلف طرح کے مسائل کا شکار ہے۔ ان مسائل کا حل نہ تو پی ٹی آئی کی حکومت فراہم کرسکی اور نہ ہی اب یہ نون لیگ کے بس کی بات دکھائی دیتی ہے۔
صوبے کے دارالحکومت لاہور کے مختلف علاقوں کی سڑکیں ایک لمبے عرصے سے زیر تعمیر ہیں۔ ان میں سے کچھ سڑکوں کی تعمیر نگران حکومت کے دور میں شروع ہوئی تھی اور کچھ کی اس سے بھی پہلے۔ نگران حکومت نے ان منصوبوں کو مکمل کرنے سے گریز کیا جو اس سے پچھلی حکومت نے شروع کیے تھے۔ موجودہ حکومت بھی اسی طرح کررہی ہے، لہٰذا کئی برسوں سے اکھڑی ہوئی سڑکوں کی تعمیر کے کام پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ لاکھوں شہریوں کو اگر پریشانی اور مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تو یہ ان کا مسئلہ ہے، حکومت کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں۔ ایک طرف بڑے بڑے اشتہار چھاپ کر یہ بتایا جارہا ہے کہ حکومت صوبے میں ترقی، استحکام اور خوشحالی کے لیے دن رات ایک کررہی ہے اور دوسری جانب صوبائی دارالحکومت کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں حکومتی ترجیحات کے بارے میں کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہیں۔
سڑکوں کی تعمیر نہ ہونے سے یقینا عوام مسائل کا شکار ہورہے ہیں لیکن یہ مسائل ان کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں جو تعلیمی اداروں کی یتیمی کی وجہ سے پیدا ہورہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت پنجاب میں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری کسی بھی وزیر کو باضابطہ طور پر نہیں سونپی گئی۔ سکول ایجوکیشن کے وزیر کے ذریعے ہائر ایجوکیشن کے معاملات کو کسی حد تک چلایا جارہا ہے لیکن ان کے پاس ہائر ایجوکیشن کا باقاعدہ چارج نہیں ہے۔ اس صورتحال سے کئی طرح کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت ان مسائل سے واقف نہیں ہے یا اسے یہ نہیں پتا کہ ہائر ایجوکیشن کے وزیر کا تقرر کتنا ضروری ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ اگر تعلیم واقعی حکومت کی ترجیح ہوتی تو اب تک ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری باقاعدہ طور پر کسی وزیر کو دی جاچکی ہوتی، اور خاص طور پر یہ ذمہ داری کسی ایسے شخص کو ملی ہوتی جسے تعلیمی معاملات سے واقعی کوئی دلچسپی ہوتی۔
وزیر نے تو خیر محکمے کے معاملات کی نگرانی ہی کرنی ہوتی ہے، اصل کام جن لوگوں کے ذمے ہوتا ہے ان کی عہدے بھی عرصہ دراز سے خالی پڑے ہیں۔ پنجاب میں کل 82 یونیورسٹیاں ہیں جن میں سے 51 سرکاری ہیں اور 31 غیر سرکاری۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 28 ایسی ہیں جن کے وائس چانسلرز کے عہدے خالی ہیں۔ کہیں کسی کو عارضی چارج پر وائس چانسلر بنا کر معاملات چلائے جارہے ہیں تو کہیں پرو وائس چانسلر کے ذریعے یونیورسٹی چل رہی ہے۔ حکومت اعلیٰ تعلیم کے لیے کتنی سنجیدہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ پنجاب یونیورسٹی جو ملک کی سب سے پرانی جامعہ ہے اس کے وائس چانسلر کا عہدہ پچھلے ڈھائی سال سے خالی ہے۔ کئی یونیورسٹیوں میں ایسا بھی ہوچکا ہے کہ تین چار مہینے کے لیے ایک شخص کو وائس چانسلر بنا دیا گیا اور پھر جب وہ ریٹائر ہوا عارضی بنیاد پر کسی اور کو لگا دیا گیا۔ اس صورتحال میں یونیورسٹیاں جیسے چل سکتی ہیں بالکل ویسے ہی چل رہی ہیں، یعنی لولی لنگڑی۔ لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
اب ہائر ایجوکیشن کے دوسرے اداروں کا حال بھی سن لیجیے۔ پنجاب کے ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن یعنی ڈی پی آئی کالجز کا عہدہ بھی خالی ہے۔ یہی نہیں، تمام ڈویژنل ڈائریکٹرز کے عہدے بھی عارضی بنیادوں پر بیٹھے ہوئے افراد کے پاس ہیں۔ کئی ضلعوں کے ڈپٹی ڈائریکٹرز موجود نہیں ہیں۔ امتحانی بورڈوں کے سربراہان کے عہدے بھی مستقل تعیناتیوں کے منتظر ہیں۔ کچھ بورڈوں میں تو کنٹرولر امتحانات اور سیکرٹری کی نشستیں بھی خالی ہیں۔ اسی طرح صوبے بھر میں چار سو سے زائد سرکاری کالجوں کے مستقل پرنسپل موجود نہیں ہیں۔ شاید یہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کی واحد مثال ہوگی کہ ایک بہت بڑی انتظامی اکائی میں تعلیم کا شعبہ زیادہ تر اداروں کے مستقل سربراہان کے بغیر ہی چل رہا ہے۔
تعلیمی اداروں میں صرف اساتذہ اور طلبہ کے ہونے سے ہی بات نہیں بنتی بلکہ ان کے انتظامی معاملات کو چلانے کے لیے سربراہان کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اسی طرح، امتحانی بورڈوں اور ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹس میں مختلف انتظامی عہدوں پر افراد کی مستقل تعیناتی بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ان سب عہدوں پر مستقل تعیناتیاں نہ ہونے سے جتنی بھی قسم کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں پنجاب کے تعلیمی اداروں کو اس وقت ان تمام طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف جہاں دوسرے کاموں پر توجہ دے رہی ہیں وہیں انھیں چاہیے کہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو بھی اپنی توجہ کا مرکز بنائیں اور محکمے کے وزیر سے لے کر کالجوں کے پرنسپلوں تک تمام عہدوں پر جلد از جلد مستقل تعیناتیاں کریں۔

مشفق لولابی--- سماج دوست

ای پیپر دی نیشن