ماہ ستمبر کے ولولے

اگست کی گرمی اور حبس آخری دموں پر ہے ، تین روز بعد ستمبر شروع ہوجائے گا، جس میں پورے جوش و خروش سے 6ستمبر کویوم دفاع منایا جاتا ہے۔ لیکن میری تجویز ہے کہ ستمبر کے پورے مہینہ کو ماہ دفاع کے طور پر منایا جائے۔ ہم نے پچھلے 77برس میں صرف ایک جنگ نہیں لڑی ، بلکہ 1948ء میں بھارت نے کشمیر میں گھس کر ہم پر پہلی جنگ مسلط کی ، ہم نے گلگت ، بلتستان اور کشمیر کا ایک بڑا حصہ بھارت کے چنگل سے چھڑوالیا۔ بھارت سے ہماری دوسری جنگ رن آف کچھ میں چھڑی ، جس میں ہم نے بھارت کو ایسی مار دی کہ بھارتی وزیراعظم شاستری اس دھمکی پر اتر آئے کہ آئندہ ہم اپنی مرضی کے محاذِ جنگ پر لڑیں گے۔ 6ستمبر 1965ء کو بھارت نے اپنی مرضی کا محاذ کھولا ، اور رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح اس نے پاکستان کے ساتھ تیسری جنگ چھیڑدی ، بھارتی افواج کے کمانڈر نے بلند بانگ دعویٰ کیا کہ وہ شام کو لاہور کے باغِ جناح میں جامِ فتح نوش کریں گے۔ 
اس بھارتی جرنیل پر پاکستانی فوج نے ایسا حملہ کیا کہ وہ گھیرے میں آگیا اور اپنی جیپ چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ بھارت نے اپنا بکتر بند ڈویڑن نارووال کے علاقے میں داخل کردیا ، جہاں چونڈہ اور ظفروال کے ارد گرد کھیتوں میں ٹینکوں سے ٹینک ٹکرائے ، پاک فوج کا توپخانہ بھارتی فوج پر بجلی بن کر گرا ، بھارت نے اندھی قوت سے جارحیت کا پلان بنایا تھا ، مگر ہمارے جوان سینے پر بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اور انہیں بھک سے اڑادیا۔ بھارت کا ٹارگٹ یہ تھا کہ وہ نارووال اور سیالکوٹ کو روندتے ہوئے جی ٹی روڈ پر قابض ہوجائے ، لیکن بھارت کے تمام ناپاک مذموم ارادے پاش پاش ہوگئے۔ ہمارے جوانوں اور افسروں نے اپنی پاک سرزمین کے ایک ایک انچ کا دفاع کیا ، بلکہ قصور سیکٹر میں تیز رفتار پیش قدمی کرتے ہوئے کھیم کرن پر قبضہ کرلیا۔ 1965ء کی اس جنگ میں بریگیڈیئر شامی اور میجر عزیز بھٹی نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ، جبکہ میجر شفقت بلوچ نے ہڈیارہ کے نالے کے کناروں پر بھارتی فوج کا بھرکس نکال دیا۔ 
شفقت بلوچ کرنل کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے ، وہ منگلا میں اپنی بیٹی کے ہاں مقیم تھے ، جب میری ان سے فون پر بات ہوئی ، انہوں نے ایک تاریخی جملہ کہا کہ بھارتی جرنیل نے بڑ ہانکی تھی کہ وہ لاہور کے جم خانہ میں فتح کا جشن منائے گا ، شراب کے جام لٹائے گا، لیکن میں نے اسے ہڈیارہ کے گندے نالے کے بدبودار پانی کا ایک گھونٹ بھی پینے نہیں دیا۔ بریگیڈیئر شامی کو شہادت کے بعد تمغہ جرات دیا گیا اور میجر عزیز بھٹی شہید کو نشان ِ حیدر سے نوازا گیا۔ 
سلیمانکی کے محاذ پر میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر نے بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوادئیے۔ محافظِ لاہور میجرجنرل سرفراز خاں سے میری درجنوں ملاقاتیں رہیں۔ جب بھی چھ ستمبر کا ذکر آتا تو ان کی آنکھوں کی چمک دیکھنے کے لائق ہوتی تھی۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ اپنی چوتھی جنگ بھی رات کی تاریکی میں چوروں کی طرح مسلط کی۔ بھارتی فوج نے سیاچن میں ان مورچوں پر قبضہ جمالیا ،جہاں سے پاکستانی فوج یخ بستہ موسمِ سرما کی وجہ سے نیچے اترآئی تھی۔ سیاچن میں دونوں ملکوں کے درمیان دنیا کے بلند ترین محاذپر آج تک جنگ جاری ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان یہ چوتھی بڑی جنگ تھی۔ دونوں ملک پانچویں جنگ کے لئے کارگل کی بلند ، یخ بستہ چوٹیوں پر ایک دفعہ پھر آپس میں ٹکرائے۔ یہاں پاکستان نے سیاچن میں بھارتی جنگ کا بدلہ اتار دیا۔ جن بلند و بالا ، بے آب و گیاہ چوٹیوں کو موسم ِ سرما کی سختیوں کے دوران خالی کرکے بھارتی فوج نیچے اتر گئی تھی ، پاکستانی مجاہدین نے موقع پاکر ان بلند و بالا چوٹیوں پر اپنے مورچے بنالئے۔ 
بھارتی فوج نے ہر طرف سے ان چوٹیوں پر چڑھنے کی کوشش کی ، مگر پاکستانی مجاہدین کے گرینیڈ ان کے جسموں کا قیمہ کردیتے۔ کارگل میں بری طرح شکست کھانے پر متعدد بھارتی افسروں کا کورٹ مارشل ہوا اور انہیں سزائیں دی گئیں۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ چھٹی جنگ فضائیہ کی مدد سے چھیڑی۔ بھارتی طیاروں نے رات کے اندھیرے میں پاکستانی علاقے میں جی بھر کر بمباری کی۔ اگلے روز پاک فضائیہ نے جوابی وار کیا اور بھارتی جہاز بھی فضا میں بلند ہوئے ، مگر پاکستان نے بھارت کے ونگ کمانڈر ابھی نندن کے طیارے کو میزائل سے چکنا چور کردیا۔ اس سورما کی مرہم پٹی اور چائے کی ایک پیالی پلاکر واپس بھارت کے حوالے کردیا گیا۔ یہ ہے پاکستان کا دفاعی شاہنامہ ، جسے ہر سال ہمیں ستمبر میں توضرور یاد رکھنا چاہئے۔ 
پاکستان نے ماضی کی تاریخ میں دو عالمی جنگیں بھی لڑیں۔ پہلے تو جب سوویت  روس کی افواج افغانستان میں داخل ہوگئیں ، ماسکو کا خیال تھا کہ وہ اپنی بہت بڑی جنگی مشینری کے زور پر افغانستان کو روندتے ہوئے پاکستان میں گوادر کے گرم پانیوں کی بندرگاہ پر قابض ہوجائے گا۔ گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنا روس کے زاروں کی دیرینہ خواہش رہی ہے۔ تاہم پاکستان کی آئی ایس آئی نے افغان مجاہدین کو تربیت دے کر روسی افواج کے مدمقابل کھڑا کیا ، ان مجاہدین نے روسی افواج کو ناکوں چنے چبوادئیے۔ کئی سال تک جاری رہنے والی بے مقصد لڑائی کے بعد روسی فوج ہار مان کر واپس جانے پر مجبورہوگئی۔ 
یوں پاکستان سوویت یونین روس کی طرف سے مسلط کردہ نویں جنگ میں بھی سرخرو رہا۔ پاکستان کو دسویں جنگ کا سامنا نائن الیون کے واقعے کے بعد کرنا پڑا۔ جب امریکہ نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا ساتھ دے ، ورنہ اسے پتھر کے دور میں دھکیل دیا جائے گا۔ بظاہر میدان ِ جنگ تو افغانستان تھا، لیکن امریکی ڈرون پاکستانی علاقوں پر گرتے رہے ، امریکی افواج نے پاکستانی علاقے میں درگئی کے مقام پر حملہ کیا ، جہاں رات کے گہرے اندھیرے میں پاکستانی فوجی میٹھی ، گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ مگر امریکی میزائلوں نے اس چوکی پر موجود پاکستانی فوجیوں کو شہید کردیا۔ ستم بالائے ستم ، امریکہ نے بھارت کی مدد سے دہشت گردوں کو تربیت دے کر پاکستان کے طول و عرض میں پھیلادیا۔ جنہوں نے مسجدوں ، مزاروں، جنازوں، سکولوں، بازاروں، منڈیوں اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ ان چھپے دہشت گردوں نے پاکستان کے 70ہزار شہریوں کو خودکش حملوں میں شہید کردیا۔ ان میں ہزاروں فوجی جوان اور افسر بھی شامل تھے ، لیکن آفرین ہے پاکستان کی مسلح افواج پر کہ اس کے قدم ہرگز نہیں ڈگمگائے۔ اور اس نے بالآخر چن چن کر ہر دہشت گرد کو جہنم رسید کردیا۔ 
پاکستان نے ایک ایسی بڑی جنگی کامیابی حاصل کی تھی جو امریکی افواج نیٹو ممالک کی مشترکہ افواج کی مدد سے بھی حاصل نہ کرپائیں اور بالآخر اسے ایسی شکست ِ فاش کا سامنا کرنا پڑا کہ اس نے چند لمحوں میں افغانستان کو خالی کردیا۔ افغانستان سے فرار ہونے والے امریکی جہازوں کے پہیوں سے لٹک کر مارے گئے ، اس سے امریکیوں اور ان کے حامیوں کی بزدلی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی افواج کی یہ روشن کامیابیاں تاریخ کے صفحات پر سنہری حروف میں لکھی جائیں گی۔ 
اور آخری بات ، آج بنگلہ دیش نے جو نئی کروٹ لی ہے ، اس نے ہمارے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو یہ کہنے کا موقع دیا ہے کہ کہاں ہیں دو قومی نظریہ کی مخالفت کرنے والے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

 " چن" کتھاں گزاری آئی رات وے

شاہد نسیم چوہدری ٹارگٹ0300-6668477کہتے ہیں کہ نادان دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہے،۔۔۔،جسکی آج واضح مثال بھی مل گئی۔۔۔،اسلام آباد میں ...