ہار کیسی بھی ہو تکلیف دہ ہوتی ہے مگر ہوم گرائونڈ پر اپنے سے تاریخی طور پر کم تر ٹیم کے ہاتھوں بھاری مارجن سے شکست کی چبھن کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ شکست کے بعد جذباتی ردعمل بجا لیکن ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہئے کہ آخراس زوال کی کیا وجوہات ہیں؟۔کھیل ریلیکس اور انجوائے کرنے کے لئے ہوتا ہے، کھلاڑی اور پریشر 2 متضاد چیزیں ہیں جو پریشر لے تو سمجھ لیں کہ یا تو اس کی کھیل کے لئے تربیت پروفیشنل نہیں ہوئی یا پھر وہ ذہنی طور پر بہت کمزور ہے۔پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں میں بھی چند ایسی ہی خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں کہ اگر بیٹنگ اچھی کرلی توپھر باؤلنگ بہترنہیں کر پاتے اور اگر باؤلنگ آئوٹ کلاس ہوگئی تو پھر بیٹنگ فیل باقی کسر فیلڈنگ میں نکال دی جاتی ہے۔بنگلا دیش نے شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے23سالہ ٹیسٹ کرکٹ تاریخ میں پہلے ہی میچ میں پاکستانی ٹیم کو ہوم گرائونڈ میں شکست دے کر تاریخ رقم کر دی۔راولپنڈی میں ہونے والے ٹیسٹ میچ کے دوران جس پچ پر مخالف ٹیم کے کھلاڑی بآسانی رنز بناتے اور بائولرز تواتر کے ساتھ وکٹس لیتے رہے اسی وکٹ پر ہمارے کھلاڑیوں کی بے بسی قابل دیدنی تھی۔ پاکستانی ٹیم کے کپتان شان مسعود اور بابر اعظم سمیت متعدد بلے بازوں کے انتہائی غیر ذمہ دارانہ سٹروکس سے دیگر نوجوان کھلاڑی بھی دبائو کا شکار رہے،گوکہ سعود شکیل اور محمد رضوان بڑا سکور کرنے میں کامیاب رہے لیکن وہ بھی کسی کام نہ آسکا۔ضرورت سے زیادہ پچ پر تنقید کرنے والے بلے بازوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ جارحانہ انداز اپنائیں یا دفاعی انداز میں کھیلتے ہوئے میچ کو ڈرا کی طرف لے جائیں،بائولرز بھی اپنی قابلیت کے وہ جوہر نہیں دکھا سکے جس کی ان سے توقع کی جا رہی تھی،یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ2 ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن
شپ کا حصہ ہے۔ پاکستان مہمان ٹیم کو وائٹ واش کرکے پوائنٹ ٹیبل پر چھٹے سے تیسرے نمبر پر پہنچ کرآئندہ برس آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل کھیلنے کی راہ ہموار کر سکتا تھالیکن کھلاڑیوں کی روایتی غلطیوں سے ناصرف ٹیسٹ رینکنگ میں پوزیشن 8ویں نمبر پر چلی گئی ہے بلکہ اب قومی ٹیم کے سر پرکلین سویپ کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔ بنگلا دیش کی ٹیم ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت میدان میں اتری اور اس کے نوجوان بائولرز نپی تلی بائولنگ اور بیٹسمین ایک ڈسپلن کے تحت بڑے ردھم میں دکھائی دئیے، مشفیق الرحیم نے 191 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر جبکہ نوجوان بائولرز نے ایک مضبوط ٹیم کو صرف 146رنز پرہی ڈھیر کر دیا،یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ پہلے ٹیسٹ کے پہلے4 روز میں بات صرف پچ کے فلیٹ ہونے پر ہوتی رہی تاہم پانچویں روز کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چائے کے وقفے سے قبل ہی بنگلہ دیشی ٹیم فتح کا جشن منا ئے گی۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی گزشتہ ایک برس کے دوران کارکردگی کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بڑی مایوس کن رہی ہے۔بین الاقوامی دوروں،ایشیاء کپ ،ورلڈ کپ اورٹیسٹ کرکٹ میں یکے بعد دیگرے شکست سے اس کی دنیا بھر میں بڑی سبکی ہوئی ،میچ ہارنے کے بعد پریس کانفرنس میں روایتی بیان بازی،معافی تلافی اور پھر وہی روش برقرار۔کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی کی ذمہ داری کوئی بھی اپنے سر لینے کو تیار نہیں ؟۔حال ہی میں ٹی 20ورلڈ کپ کے پہلے ہی رائونڈ میں ٹیم کی عبرتناک شکست کے بعد چیئرمین پی سی بی محسن نقوی جذبات کے دھارے میں بہہ کرایک ’’ میجر سرجری‘‘ کی بات تو کر گئے مگرجب اس پر عمل کا وقت آیا تو عبدالرزاق اور وہاب ریاض کی قربانی کے علاوہ کوئی
دوسرا ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا سکا،نجانے کون سی مجبوری آڑے آگئی کہ وہی پرانی پالیسیوں کا تسلسل ایک مرتبہ پھر سے جاری رکھنے پر ہی اکتفا کر لیا گیا بہرحال بنگلا دیش کے ہاتھوں شکست کے بعد ایک مرتبہ پھر سے ’’سرجری‘‘کی باتیں تو شروع ہوئی ہیں لیکن ’’بیک اپ ‘‘سے مشروط… اب دیکھنا یہ ہے کہ ’’سرجری‘‘کیلئے جس ’’بیک اپ‘‘کا ذکر کیا گیا ہے وہ کتنی مدت میں پورا ہو گا؟۔پی سی بی ایک اسی تجربہ گاہ ہے جہاں جو آیا اس نے اپنے ہی فارمولے پر اکتفاکرتے ہوئے نیا نظام متعارف کروایا ،ایک سسٹم کو کبھی بھی 3سے 5برس تک چلنے نہیں دیا گیا،سیاسی آشیر باد پر بورڈ ہی نہیں بلکہ ٹیم میں پے در پے تبدیلیوں کابرا اثرکھلاڑیوں پربدستور پڑتا رہا اور تاحال پڑ رہاہے۔قومی ٹیم گزشتہ برس کے وسط تک اپنی درست سمت میںسفر طے کرتے ہوئے فتوحات سمیت رہی تھی لیکن پھر بورڈ میں تبدیلیوں کے ساتھ پسند و ناپسند اور کپتانی کی بلا جواز دوڑ شروع ہونے سے کارکردگی اس نہج پر پہنچ گئی کہ اب ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ بیک وقت ایک سے زائد کپتان ہیں۔چیئرمین محسن نقوی نے گزشتہ دنوں جو عندیہ دیا کہ کرکٹ کے تمام معاملات ٹھیک کر کے ہی گھر جائوں گا ناقابل فہم سا ہے کیونکہ قبل ازیں بھی مختلف ادوار میں اس عہدے پر براجمان ہونے والی معتبر شخصیات نے بلند وبانگ دعوے تو کئے تھے لیکن کچھ خاص نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ چیئرمین پی سی بی کا یہ انکشاف کہ ’’ ہمارے پاس کوئی سافٹ وئیر نہیں کہ بیک اپ پلیئرزکا پتہ چل سکے‘‘لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ کرکٹ ٹیم میں بہتر اصلاحات کیلئے ’’الہ دین کا چراغ‘‘چاہئے یا پھر ’’جادو کی چھڑی‘‘اس حوالے سے نجم سیٹھی کی ’’چڑیا‘‘ ہی بہتر رہنمائی کر سکتی ہے کیونکہ ماضی میں اس کی بھی جو ’’اڑان ‘‘رہی اسے کوئی فراموش نہیں کر سکتا۔
’’جادوکی چھڑی ‘‘یا’’ الہ دین کا چراغ‘‘
Aug 29, 2024