آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور موٹروے پولیس کے ظالمانہ اقدامات

گزشتہ روز خبر آئی  کہ پنجاب بھر میں دھواں دینے والی ہزاروں گاڑیوں کے چالان کئے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ تکنیکی خرابی کے باعث ان میں بہت کم گاڑیاں ہوں گی جن کی مرمت کردی جائے تو دھواں نہ دیں لیکن ناقص پٹرولیم مصنوعات کے باعث نئی نئی گاڑیاں دھواں دیتی ہیں۔ ایک تو جب سے حکومت نے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو پٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے کی اجازت دی ہے تب سے یہ سلسلہ چل رہا ہے کہ کچھ کمپنیاں 3طرح کے معیار کی پٹرولیم مصنوعات درآمد کررہی ہیں اور جب جہاز پورٹ پر لنگر انداز ہوتا ہے تو کسٹم کے حکام سے ملی بھگت کرکے بھاری رشوت دی جاتی ہے اور معیاری پٹرولیم مصنوعات کا سیمپل دیکر رپورٹ جاری کرائی جاتی ہے جس سے غیر معیاری پیٹرولیم مصنوعات ملک میں لانے کی اجازت مل جاتی ہے۔ یہ سب کچھ دونوں پورٹس پر کھلے عام ہورہا ہے لیکن حکومتی سطح پر اس کے خلاف کوئی ایکشن نظر نہیں آرہا۔ یہی تین طرح کے معیار کی پروڈکٹس امپورٹ کرنیوالی آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ملک بھر میں مختلف ڈسکاؤنٹ دے کر پٹرولیم مصنوعات فروخت کر رہی ہیں اور ملک بھر میں کھلے عام غیر معیاری پٹرولیم مصنوعات کی فروخت جاری ہے۔ پاکستان میں ARL, NRL, PRL‘ اٹک ریفائنری اور پارکو کی پیٹرولیم مصنوعات معیاری ہیں اور ان ریفائنریز سے زیادہ تر مصنوعات شیل‘ ٹوٹل پارکو‘ پی ایس اور اٹک پٹرولیم خریدلیتی ہیں۔ ان آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی پٹرولیم مصنوعات معیاری ہیں۔ ان کے علاوہ کھلنے والی درجنوں چھوٹی چھوٹی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے غیر معیاری پٹرولیم مصنوعات فروخت کرکے بہت منافع کمایا ہے تو دوسری طرف بینکوں خصوصاً نیشنل بینک کے افسران کو رشوتیں دے کر 50-60ارب کے بھاری قرض لے کر ہڑپ کرچکی ہیں۔     قومی سرمائے کی لوٹ مار کرنے والی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں سے بینکوں کے اربوں روپے وصول کئے جانے چاہئیں اور ان پر حکومت قبضہ کرکے قومی وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ بند کراے۔ ایک تو غیر معیاری پٹرولیم مصنوعات درآمد کرکے اربوں روپے کمائے گئے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے جبکہ دوسری طرف بینکوں سے بھاری قرض لیکر ہڑپ کرلئے گئے ہیں۔ بینکوں کے ان افسران کے خلاف بھی سخت کارروائی ہونی چاہئے جنہوں نے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر رشوت کے عوض بھاری قرض منظور کئے اور قومی وسائل کی بندر بانٹ میں ملوث ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو پٹرولیم مصنوعات درآمد کی دی گئی اجازت ختم کرکے ساری پٹرولیم مصنوعات حکومت خود درآمد کرے اور مقامی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو خود فروخت کرے۔ اس طریقے سے غیر معیاری مصنوعات کی درآمد رک جائے گی۔ ملک بھر میں قائم غیر قانونی پٹرولیم ایجنسیاں بند کرائی جائیں اور پٹرول پمپوں پر چھاپے مار کر معیار اور مقدار کو چیک کیا جائے۔ جس پٹرول پمپ کی پٹرولیم مصنوعات میں ملاوٹ ہو‘ انہیں بند کرایا جائے۔     جنر ل مشرف کے دور حکومت تک ایرانی ڈیزل و پٹرول صرف تافتان بارڈر تک آتا تھا اور قریبی ملحقہ علاقوں تک استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ اس دور میں تو کوئٹہ تک بھی ایرانی ڈیزل و پٹرول نہیں پہنچ سکتا تھا مگر اب پشاور تک ایرانی ڈیزل و پٹرول کھلے عام فروخت ہورہا ہے۔ ان سب معاملات کا مقامی انتظامیہ کو اچھی طرح علم ہے اور ملی بھگت سے غیر معیاری پٹرولیم مصنوعات کا کاروبار کھلے عام ملک بھر میں پھیل چکا ہے۔ ایرانی ڈیزل و پٹرول پر پابندی لگنی چاہئے۔ ایرانی ڈیزل و پٹرول کے کاروبار کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف بھی حکومت ایکشن لے۔ 
حکومت کا کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں غیر معیاری پٹرولیم مصنوعات فروخت ہورہی ہیں جبکہ پولیس دھواں دینے والی گاڑیوں کا چالان کرکے سارا ملبہ گاڑی والوں پر ڈال رہی ہے۔ پنجاب میں تو خاص طور پر ہر طرح کی وردی والے روڈ پر نکل کر گاڑیوں پر مظالم ڈھانے میں لگے ہیں چاہے ٹریفک پولیس ہو‘ عام پولیس ہو‘پٹرولنگ پولیس یا موٹروے پولیس۔ سب نے پنجاب میں گاڑی والوں سے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ 
حکومت‘ وزارت مواصلات‘ موٹروے پولیس‘ صنعتکاروں اور ٹرانسپورٹرز کی مشترکہ میٹنگ ہونی چاہئے اور شاہراہوں پر وزن کی پابندی کے معاملات پر متفقہ فیصلہ کیا جائے جس میں ایسا طریقہ کار طے کیا جانا چاہئے جس سے کرایوں میں اضافہ بھی نہ کرنا پڑے اور مہنگائی میں بھی اس کے باعث اضافہ نہ ہو کیونکہ موٹروے پولیس کے موجودہ رویئے کے باعث تو کرایوں میں نمایاں اضافہ ہونے سے مہنگائی میں مزید اضافہ ناگزیر ہوجائے گا۔ بہتر ہوگا کہ 22وہیلر گاڑی کو 50ٹن وزن لے جانے کی اجازت ہو اور مکمل وزن 75ٹن ہوگا جس میں سے گاڑی کا اپنا وزن 25ٹن ہوتا ہے۔ اسی طرح 18وہیلر گاڑی کو45ٹن وزن لے جانے کی اجازت ہو اور مکمل وزن 65ٹن ہوگا جس میں سے گاڑی کا اپنا وزن 20ٹن ہوتا ہے۔14وہیلر گاڑی کو35ٹن وزن لے جانے کی اجازت ہو اور مکمل وزن 55ٹن ہوگا جس میں سے گاڑی کا اپنا وزن 20ٹن ہوتا ہے۔10وہیلر گاڑی کو30ٹن وزن لے جانے کی اجازت ہو اور مکمل وزن 45ٹن ہوگا جس میں سے گاڑی کا اپنا وزن 15ٹن ہوتا ہے۔
اس فارمولے پر کچھ سالوں کے لئے اتفاق رائے پیدا کیا جانا چاہئے اور ٹرانسپورٹرز میں پائی جانے والی بے چینی کے خاتمے کے لئے وزارت مواصلات اور موٹروے پولیس کو مشترکہ میٹنگ کا اہتمام کرنا چاہئے۔ موٹروے پولیس کو پابند بنایا جائے کہ 24گھنٹے میں ایک چالان سے زیادہ چالان نہ کرے۔ پنجاب میں پٹرولنگ پولیس کو مال بردار گاڑیوں پر مظالم سے روکا جائے۔ اسی طرح پنجاب میں ٹریفک پولیس اور عام پولیس کو بھی مال بردار گاڑیوں پر زیادتیوں سے باز رکھا جانا چاہئے۔ اسی طرح ایرانی ڈیزل و پٹرول کی فروخت روکی جائے۔ غیر معیاری پٹرولیم مصنوعات کی فروخت روکنے کے لئے حکومت دلچسپی لے اور تمام وہ اقدامات ہونے چاہئیں جس سے غیر معیاری پٹرولیم مصنوعات کی فروخت روکنا ممکن ہو۔ اس کے علاوہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی لوٹ مار کا سدباب کیا جائے۔ قومی سرمائے کی لوٹ مار کرنے والی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا محاسبہ بھی ہونا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن