جمعرات، 23صفرالمظفر، 1446ھ29 اگست 2024

لندن میں چاقو زنی کی وارداتوں میں تیزی آ گئی، کئی ہلاک و زخمی
 ایک وقت تھا جب کہا جاتا تھا کہ شاعری میں ہمارا سارا زور مرثیہ خوانی میں ہی نظر آتا ہے۔ اسی طرح چاقو بازی میں بھی یہی ملکہ ممبئی ، کولکتہ، بنارس ،اودھ ،لکھنو، دہلی، لاہور اور کراچی کے، یوں کہہ لیں، برصغیر کے بدمعاشوں کو حاصل رہا۔ سچ کہیں تو مہارت اور طاقت کا سارا خمار ہی اس فن کے طاق ہونے میں نظر آتا تھا۔ کیسے کیسے استاد اس فن کے ماہر ہوتے تھے۔ جو سب سے بہتر ہوتا وہ اپنا علاقہ سنبھالتا تھا اور دادا کہلاتا۔ یہی ہر فن مولا چاقو باز نئے آنے والے پٹھوں، جی الو کے پٹھوں نہیں، نو آموز کن ٹوٹوں اور بدمعاشوں کو اس کی تربیت دیتا تھا۔ اس وقت کا گراری والے مراد آبادی چاقو کی پورے برصغیر میں دھوم تھی ،جو مچھلی کی طرز پر نہایت خوبصورتی سے بنا ہوتا تھا۔ جب کسی لڑائی یا بلوے میں کٹ کٹ کٹ کرکے کھلتا تو بڑے بڑوں کا پتّہ پانی ہو جاتا تھا۔ لڑائی جھگڑوں میں پہلے زور آزمائی یعنی طاقت سے کام لیا جاتا تھا یا پھر ڈانگ اور سوٹے استعمال ہوتے تھے۔ بدرجہ مجبوری آخری حربہ میں چاقو نکلتے تھے جس کے بعد کسی کا سینہ چاک ہوتا یا پیٹ۔ ورنہ گردن تو آسانی سے کٹ جاتی تھی۔ ہمارے ہاں آج تک وزیر آباد کے چاقو اپنی مثال آپ ہیں، یعنی مشہور ہیں۔ ان کا استعمال اب کم ہو گیا ہے کیونکہ نہ بدمعاش رہے نہ استاد۔ اب تو صرف ڈاکو اور چور پائے جاتے ہیں جو پستول یا کلاشنکوف استعمال کرتے ہوئے اپنی غنڈہ گردی کی دھاک بٹھاتے ہیں۔ اب بھلا اسلحہ کے سامنے کسی کی بہادری کہاں چلتی ہے۔ اسی بات پر حیرت ہوتی ہے کہ یورپ میں عام طور پر اسلحہ عام ملتا ہے مگراس کے باوجود لندن میں چاقو سے حملوں کی وارداتیں بڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے جرائم پیشہ افراد بھی اپنی منفی سرگرمیوں کے لیے روایتی ہتھیار یعنی چاقو استعمال کرنے لگے ہیں۔ گزشتہ کچھ ماہ سے وہاں چاقو زنی کی وارداتوں میں متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسلحہ کی آواز دور تک سنائی دیتی ہے جائے وقوعہ کا پتہ چل جاتا ہے۔ مگر چاقو تو خاموش قاتل ہے۔ 
٭٭٭٭٭
مون سون کا طاقتور سپیل برس پڑا ،سیلا ب سے کئی علاقے بری طرح متا ثر
بالآخر آ گیا وہ شاہکار جس کا تھا سب کو انتظار۔ جی ہاں کل تک لوگ ساون کے سوکھا گزرنے پر ناک بھوں چڑھاتے پھر رہے تھے اور آج یہ حال ہے کہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بارش رکنے کی دعائیں کر رہے ہیں۔ انسان بھی عجیب طبیعت رکھتا ہے۔ کبھی تو 
وہ ابر تھا تو اسے ٹوٹ کر برسنا تھا 
یہ کیا کہ آگ لگا کر ہوا روانہ وہ۔
 کی شکایت کرتاہے ،خشک سالی کا خوف لوگوں کا خون خشک کر دیتا تو کبھی بے خبر سسی کو جگا کر یاددہانی کرائی جاتی ہے کہ اس کا شہر ڈوب رہا ہے اس لیے جاگتے رہنا۔ اب واقعی اس وقت جو مون سون کی بارشوں کا بھرپور طاقتور سپیل بنگلہ دیش، بھارت کی بعد اب پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ وہ تباہی کا نیا منظر پیش کر رہا ہے۔ اب یہی سمندر ی ہوا کا دبائو پاکستان میں بارش برسا رہا ہے۔ سندھ، پنجاب خاص طور پر اس کی زد میں بلوچستان میں بھی ہائی الرٹ جاری کر کے ماہی گیروں کو سمندر میں جانے سے روک دیا گیا ہے۔ پنجاب اور سندھ کے بہت سے علاقوں میں سیلاب بپھرا ہوا ہے۔ بے رحم پانی، انسانوں، جانوروں اور فصلوں کے ساتھ مکانات کو بھی بہا لے جا رہا ہے۔ خیبر پی کے اور بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں کلاؤڈ براسٹ کی وجہ سے طوفانی بارش کے باعث ندی نالوں میں سیلابی ریلے سڑکوں اور گاڑیوں کو ہی نہیں مکانات کو بھی خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ اگلے ماہ یعنی ستمبر میں بھی جاری رہ سکتا ہے۔ لوگوں کے مسائل مزید بڑھ رہے ہیں۔ حکمران اپنے بہت سے مسائل میں الجھے ہیں اس لیے داد رسی میں تاخیر سے مصائب اور بڑھ سکتے ہیں۔ چنانچہ قدرتی آفات سے تحفظ کے ادارے اپنا کام تیز کریں اور پوری طاقت سے صورتحال کنٹرول کرنے کی کوشش کریں۔ 
٭٭٭٭٭
وزیر اعظم ہائوس کے ملازمین کے لئے10 کروڑ 89 لاکھ کا اعزازیہ۔ کفایت شعاری مہم کہاں گئی 
حالات کی سنگینی اور حکمرانوں کی رنگینی دیکھ کر تو لگتا ہے کہ کفایت شعاری کی جو مہم حکومت نے بڑے زور شور سے شروع کی تھی وہ اپنے ہی زور و شور کے بوجھ تلے کہیں دب گئی ہے۔ جب خود وزیر اعظم ہائوس کے اخراجات کسی کے کنٹرول میں نہیں تو کسی اور سے کیا کہا جا سکتا ہے۔ دروغ برگردن راوی کے مصداق تمام تر اعلانات کے باوجود پی ایم ہاؤس کے ملازمین کو 10 کروڑ 89 لاکھ روپے کا اعزازیہ روٹین سے ہٹ کر دیا گیا۔ اب معلوم نہیں یہ ان کو کس کارکردگی کی وجہ سے دیا گیا۔ اس نوازش کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی جو وزیر اعظم ہائوس کے منتظمین ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کس شعبہ میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر یہ بخشش کی برسات کی ہے۔ لوگ تو اسے اندھا بانٹے ریوڑیاں والی بات کہہ رہے ہیں۔ عام آدمی بخشش، ریلیف کی ایک ایک بوند کو ترس رہا ہے اور ایوان وزیر اعظم کے خوشہ چیں نعمتوں کے دریا میں ڈبکیاں لگاتے نظر آ رہے ہیں۔ اس پر سوال تو بنتا ہے ناں…کیا عام چھوٹے موٹے سرکاری محکموں میں ہی کفات شعاری کی تلوار چلائی جائے گی۔ اس سے بھلا کیا بچت ہو گی جب بڑی مچھلی کو سمندر میں چھوٹی مچھلیاں کھانے کی اجازت ہو گی تو پھر چھوٹی مچھلیوں کے منہ سے دانہ چھینے کی کوشش سے کیا ہو گا۔ ویسے سچ ہی کہتے ہیں کہ سمندر کا قانون ہے، ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا لیتی ہے۔ سو لگتا ہے یہی ہمارے ہاں بھی ہو رہا ہے۔ بڑے ادارے اخراجات کی مد میں آزاد ہیں۔ پابندیاں صرف چھوٹے محکموں یا اداروں کے لیے ہیں۔ جبھی تو انہیں ٹھینگا اور بڑوں کو اعزازیہ دیا جا رہا ہے شاید اسی کو رنجیت سنگھ کا انصاف کہا جاتا ہے۔ بہرحال اس سے بڑے چھوٹے کا فرق تو معلوم ہو گیا۔ 
٭٭٭٭٭
قاہرہ میں حماس، اسرائیل امن مذاکرات ناکام
بالکل واضح بات ہے جو مذاکرات بنا کسی نتیجے کے ختم ہوں تو انہیں لگی لپٹی بغیر ناکام ہی کہا جا سکتا ہے۔ باقی اپنا دل خوش کرنے کے لیے جس کا جو جی چاہے کہہ لے۔ یہی حال فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کے لیے مختلف ممالک میں منعقدہ اجلاسوں کا ہو رہا ہے۔ بڑی طاقتیں زبان کلامی جو چاہیں کہیں مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جب تک اسرائیل کا ابو امریکہ نہیں چاہے گا یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہونگے خواہ قاہرہ میں ہوں یا دوحہ میں۔ کویت میں ہوں یا دبئی میں۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان امن تب ہی ہو گا جب امریکہ اپنی ناجائز اولاد کو مجبور کرے گا۔ اگر اس طرح ہلہ شیری ملتی رہی تو پھر کچھ نہیں ہونے والا۔ اب تو اسرائیل نے فلسطین کے علاوہ لبنان کو بھی نشانے پر لیا ہوا ہے۔ حزب اللہ والے جتنی چاہے چاند ماری کر لیں راکٹ فائر کریں یا ڈرون حملے کریں امریکہ کے دیئے ہوئے فضائی حملوں سے بچاؤ والے نظام کی بدولت یہ راکٹ اور ڈرون اسرائیل پر گرنے سے پہلے ہی تباہ ہو جاتے ہیں۔ سو میں سے کوئی چند ایک ہی اسرائیل میں کامیاب حملہ کر پاتے ہیں۔ ایران نے بھی کہا تھا کہ وہ اسرائیل کو ہانیہ کی شہادت کا خوفناک جواب دے گا۔ مگر ابھی تک خاموش ہے۔ شاید وہ حزب اللہ کو استعمال کر کے جائزہ لے رہا ہے کہ کب، کہاں اور کیسے حملہ ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ حزب اللہ کے حملوں سے سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کا ہو رہا ہے۔ جواب میں اسرائیلی بربریت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ کئی اور علاقوں میں حملہ کر کے فلسطینیوں کی جان اور مال کو تباہ کرتا ہے۔ اب تو وہ لبنان پر حملوں کے بعد عالمی خاموشی پر اور شیر ہو گیا ہے۔ مصر کو بھی آنکھیں دکھانے لگا ہے۔ خدا جانے امریکہ نے جو مصر اور اسرائیل کے درمیان شرم الشیخ میں امن معاہدہ کرایا تھا وہ شرم کے مارے کس شیخ کے خیمے میں چھپا ہوا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن